منی بجٹ اور مہنگائی کا طوفان

تحریر خالد چوہدری
-9 جون کو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اسمبلی میں بجٹ پیش کیا تو تاجر برادری نے سکھ کا سانس لیا کہ کوئی بڑا ٹیکس نہ لگایا گیا۔ کم از کم اجرت میں اضافہ کر دیا گیا اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پینتیس فی صد اضافہ کر دیا گیا۔ لیکن اس وقت بھی کچھ خدشات کا اظہار کیا گیا تھا کہ نو ہزار بلین روپے ٹیکس وصولی کا ٹارگٹ کیسے حاصل ہوگا۔ بجٹ میں رقبے کی بنیاد پر ٹی-آر ون کی رجسٹریشن اور پی او یس کی تنصیب ختم کرنے کا فیصلہ کیا جس کے لئے پاکستان بھر کی فرنیچر اور جیولرز برادری سراپا احتجاج بنی ہوئی تھی۔ حکومتی فیصلے کو مختلف سطح پر سراہا گیا۔ لیکن مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح تقریبا پچاس فی صد رہی۔ غریب عوام کی قوت برداشت جواب دے گئی اور روٹی بھی غریب آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی گئی ۔ رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے والوں نے بھی بجٹ کے اعداد و شمار پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ لیکن ابھی بجٹ پاس ہی نہ ہوا تھا کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ایما پر 24 جون کو اسمبلی میں منی بجٹ پیش کر دیا ۔ اور تاجر و صنعتکار برادری کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ لوگ نو ہزار ارب روپے کے ٹارگٹ پر معترض تھے کہ اتنا بڑا ٹارگٹ حاصل ہو گا جو کہ تقریبا ناممکن تھا لیکن منی بجٹ میں ٹارگٹ نو ہزار سات سو پچاس ارب روپے فکس کر دیا گیا اور پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں پر نئے ٹیکسوں کی مزید بھر مار کر دی گئی۔حکومت نے منی بجٹ منی250 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا دیئے ۔ پراپرٹی کا کاروبار کرنے والوں کو ٹرانسفر پر دو گنا ٹیکس یعنی ایک فی صد کی بجائے دوفی صد ادا کرنا ہوگا۔ جس کی وجہ سے رئیل اسٹیسٹ کے کاروبار پر منفی اثر پڑے گا ۔ نان فائلرز کے لئے بنک سے رقوم نکلوانے پر 0.6 فی صد ٹیکس ادا کرنا ہوگا ٹیکس وصولی کی بجائے اگر نان فائلر کے لئے فائلرز کی شرط رکھی جاتی تو بہتر ہوتا- تنخواہ دار طبقہ کے لئے حکومت نے بجٹ میں پینتیس فی صد تک اضافہ کا اعلان تو کیا لیکن منی بجٹ میں ان کے لئے ٹیکسوں میں بھی اضافہ کر دیا ۔ جس سے تنخواہ بڑھنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا ۔ پیٹرولیم مصنوعات پر دس روپے فی لٹر مزید لیوی بڑھانے کا اعلان کیا گیا ہے جو پچاس روپے فی لٹر سے بڑھ کر ساٹھ روپے ہو جائے گی- پٹرولیم مصنوعات کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھتے ہیں۔ روز مرہ کی استعمال کی چیزیں سبزی فروٹ اور دیگر اشیا مزید مہنگی ہو جائیں گی مہنگائی کے موجودہ طوفان کی شدت میں مزید اضافہ ہوگا ۔ بجٹ سے قبل ملکی درآمدات پر پابندی عائد کردی گئی تھی اور ہزاروں کی تعداد میں کنٹینرز پورٹ پر رک گئے تھے۔ لیکن پابندی کی وجہ سے سمگلنگ میں اضافہ ہو گیا تھا اور حکومتی ریونیو میں کمی ہو گئی تھی ۔ حکومت پڑوسی ممالک کے لئے سمگلنگ روکنا ممکن نہیں حکومت نے جب بھی ایسی کوشش کی پڑوسی ممالک سے عسکری مزاحمت کا سامنا ہوا۔ حتی کہ ڈالر کی سمگلنگ بھی روکنے میں حکومت بری طرح ناکام رہی ۔ درآمدات روکنے سے مختلف انڈسٹر کی پیداوار رک گئی حتی کہ کار سازی ک کارخانیبھی بند ہوگئے-منی بجٹ کے ذریعے حکومت نے یوریا کھاد پر ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کر دیا ھے ۔ کھاد زرعی پیداوار کے لئے اہم ترین عنصر ہے ۔ کھاد کی قیمت میں اضافہ سے زرعی اجناس مہنگی ہونگی حکومت نے زرعی شعبہ کو اسبسڈی دینے کی بجائے ٹیکس میں اضافہ کر دیا ہے۔بجٹ پاس ہونے سے ایک دن قبل حکومت نے تیس ہزار ٹن چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی ھے جس سے مہنگائی ہوگی ۔ چینی کم از کم پچاس روپے فی کلو مزید مہنگی ہوگی۔ ملکی چینی برآمد کرنے کی اجازت دینا کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں بلکہ ملک دشمنی کے مترادف ہے حکومت فوری طور پر فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ بجٹ میں بجلی اور گیس کی پیدا وار میں اضافہ کے لئے کوئی اقدامات نہ کئے گئے ہیں ۔ جبکہ یہ عام آدمی کے استعمال میں ہوتی ہیں ۔ ملک کے جاری معاشی بدحالی کا صرف ایک ہی حل ہے کہ ایف بی آر ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرے۔ اس وقت تقریبا 3 ملین فائلر ہیں جن میں سے صرف 2 ملین ٹیکس ادا کرتے ہیں اور صرف چند فی صد معقول ٹیکس دیتے ہیں -اس وقت پاکستان بھر میں اسی لاکھ بجلی کے کمرشل کنکشن ہولڈر ہیں حکومت واپڈا سے ریکارڈ طلب کرے اور ان سب کو ٹیکس میں دیگولر فائلر بنائے اور بجلی، گیس کے کنکشن کے لئے این ٹی این کی شرط رکھے ، ٹیکس نیٹ میں اضافہ کے بغیر ٹیکس ٹارگٹ حاصل کرنا ممکن نہیں ۔ ایف بی آر گزشتہ برس کے گوشوارے من و عن تسلیم کرے اور حکومت بجلی کی مفت سپلائی اور چوری روکنے کے اقدامات کرے – حکومت اپنے روزمرہ کے اخراجات میں بھی کمی کرے.

Comments are closed.