سا ئیکلون موسمی درجہ حرارت اور ہواؤں کے دباؤ کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور درجہ حرارت اگر سمندری طوفان کو جنم دیں تو ہواؤں کا دباؤ اس کے رخ کا تعین کرتا ہے۔ بحیرہ عرب میں بننے والے سمندری طوفان “بائپر جائے” جس کا رخ پاکستان میں صوبہ سندھ کے ساحلی علاقوں خاص طور پر کراچی کی طرف تھا، کل تک سمندری طوفان “بائپرجائے” کے اثرات شدت اختیار کیے ہوئے تھے ساحل پر تیز ہوائیں اور سمندر میں شدید طغیانی کے باعث دیمی زِر کنارے پہ سڑکیں، دوکانیں، فش کمپنیاں اور نشیبی علاقے زیرِ آب آنے کے ڈر سے خالی کروا لیے گئے تھے۔کراچی میں ہر سال مئی کے آخری ہفتے میں سمندری ہوائیں بہت خطرناک ہوجاتی ہیں۔ کوئی سال ایسا بھی آتا ہے کہ خطرناک سمندری طوفان کی پیش گوئی کی جاتی ہے لیکن آخری لمحوں میں طوفان اپنا رخ بدل لیتا ہے۔ خوش قسمتی سے کراچی آج تک سمندری طوفان اور ہر قسم کی سمندری بلاؤں سے بچتا آ رہا ہے۔ کراچی میں شدید طوفان کی کئی پیش گوئیاں ہوئیں لیکن کئی طوفان ساحل سے ٹکرانے سے پہلے ہی منتشر ہو گئے تو کسی نے اپنا رخ تبدیل کر لیا، کسی کی شدت کراچی سے ٹکرانے سے پہلے اتنی ماند پڑ گئی کہ کراچی محفوظ ہی رہا۔یہ بات واضح ہے کہ 1990ء کے بعد سے آنے والے سمندری طوفان کراچی پہنچنے سے پہلے ہی اپنا رخ تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے یا تو طوفان کی شدت اتنی کم ہوئی کہ ساحل سے ٹکرانے کے باوجود کراچی محفوظ رہا۔مئی 1985ء میں ایک طوفان کراچی کی جانب بڑھا تھا جو شہر کے جنوب میں 100 کلومیٹر کے فاصلے پر ہی کمزور ہوکر ختم ہوگیا تھا۔نومبر 1993ء میں بھی کیٹیگری 1 کا طوفان مڑ کر سندھ و گجرات سرحد کے قریبی ساحل سے ٹکرایا، جبکہ جون 1998ء میں کیٹیگری 3 کا سمندری طوفان کراچی کی جانب آتے آتے جنوبی مشرقی سندھ کی طرف بڑھ گیا تھا۔
اس کے علاوہ مئی 1999ء میں کیٹیگری 3 کا سمندری طوفان کراچی کے قریب ٹکرایا جس نے سندھ کے ساحلی علاقوں کو کافی نقصان پہنچایا تھا، یہ پاکستان کا ریکارڈ سخت ترین طوفان تھا۔مئی 2001ء میں کیٹیگری 3 کا سائیکلون گجرات کے ساحل سے ٹکرایا جبکہ اکتوبر 2004ء میں اونیل نامی سا ئیکلون کراچی اور سندھ کے ساحل کی جانب بڑھا مگر بعد میں سمندر کی طرف واپس مڑ گیا۔جون 2007ء کے اوائل میں گونو نامی سپر سا ئیکلون سے کراچی محفوظ رہا اور جون 2007ء ہی میں یمین نامی ایک سمندری و ہوائی طوفان کراچی کے قریب سے گزرا تھا جبکہ نومبر 2009ء میں پھائن نامی سائیکلون پہلے ہی دم توڑ گیا تھا۔جون اور نومبر 2010ء میں پھیٹ اور جل نامی طوفان کراچی کے قریب آکر کمزور پڑ گئے تھے، جبکہ 2014ء میں نیلوفر نامی سا ئیکلون کا رخ بھی کراچی کی جانب تھا مگر عین وقت پر اس نے اپنا رخ موڑ لیا اور کراچی ایک مرتبہ پھر سمندری طوفان سے محفوظ رہا۔کراچی ساحل سمندر پر ایسا کیا ہے؟ روایت ہے کہ ایک روحانی بزرگ نے کچھ عرصہ کیلئے ساحل سمندر پر قیام فرمایا، ان کے روحانی کرامات کے چرچے ہوئے تو سمندری طوفان سے پریشان حال مچھیروں نے ان بزرگ سے ملاقات اورسمندری طوفانوں کے سدباب کیلئے خصوصی دعا کی درخواست کی تو وہ ا پنے ہجرہ سے باہر تشریف لے آئے۔ پہاڑی پر کھڑے ہو کر آسمان کی طرف ہاتھ اْٹھا کر دعا کی یا اللہ اس طوفان کو ختم فرما دے اور سمندر کی طرف رخ کیا۔ عالم جلال سے سمندر کی لہروں کو دیکھا ہاتھ سے سمندر کی طرف اشارہ کیا اور بارعب آواز میں فرمایا، “بس وہیں رْک جاؤ!”
دوسری روایت کے مطابق مچھیروں کی التجا پر ایک غیبی آواز نے پانی کا ہر سال آنے والے طوفان روک د یے۔اس کے بعد سمندر کی لہروں میں گویا ٹھہراؤ سا آگیا۔ اور پھر لوگوں نے دیکھا کہ کچھ ہی دیر میں ہوا کے منہ زور گھوڑے کو جیسے کسی غیبی طاقت نے لگام ڈال دی ہو۔ یہ کوئی عام ہستی نہیں تھی عبد اللہ شاہ غازی ؒ حضرت امام حسن ؑ کے خاندان میں سے حسن مثنی کے پوتے ہیں، ان کا اصل نام عبد ا للہؒ تھا۔ انہوں نے اپنے والد محمد نفس ذکیہ کے ساتھ مل کر مدینہ میں بنو عباس کیخلاف قیام کیا۔ عبد اللہ شاہ غازی ؒ سندھ میں چلے آئے جہاں ان کی وفات ہوئی۔ عبد اللہ شاہ غازیؒ کے نام سے معروف مزار پاکستان کے شہر کراچی میں ساحل سمندر (کلفٹن) پر واقع ہے۔بعض افراد کا عقیدہ ہے کہ کراچی عبداللہ شاہ غازی ؒکی روحانی کرامات اور ان کے کرشمات کی وجہ سے سمندری طوفان سے محفوظ رہتا ہے۔ اہلیان شہر قائد کیلئے عبداللہ شاہ غازی ؒپیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
عبدا للہ شاہ غازیؒ کا مزار 4 روز قبل بائپرجوائے کے پیشِ نظر بند کیا گیا تھا۔ آج سے دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔عبداللہ شاہ غازی ؒکے مریدوں اور شہر قائد کے مقامی لوگوں میں ایک روایت نسل در نسل چلی آرہی ہے کہ سب مرید اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ اس ولی اللہ کی حفاظت میں ہونے کی وجہ سے اس شہر کو کوئی نقصان نہیں ہو سکتا۔ اللہ کے ولی عبداللہ شاہ غازیؒ کے کراچی آمد سے پہلے کراچی بہت طوفانوں کی زد میں رہتا تھا اور ان کی دعاؤں کے طفیل یہ شہر تمام سمندری آفات سے محفوظ ہے۔حضرت عبد للہ شاہ غازیؒ کی سب سے بڑی کرامت سمندر کے قریب مزار کے نیچے میٹھے پانی کا چشمہ ہے،کھارے پانی کے شہر میں میٹھا چشمہ بذات خود ایک کرشمہ ہے۔ لوگ دور دور سے یہاں آتے ہیں اور یہ پانی پی کر شفاء یاب ہوتے ہیں۔ آپ کے مزار پر آنے والے زائرین میں ہر عقیدے کے لوگ شامل ہیں۔ زائرین کا کہنا ہے کہ یہاں آکر ہمارے دل کو تسکین ملتی ہے اور ہماری دلی مرادیں پوری ہوتی ہیں۔
Comments are closed.