چیمپئنز ٹرافی2025؁ء

چیمپئنز ٹرافی2025؁ء کا بخار چڑھنے سے پہلے ہی ہوا کی طرح اُڑھ گیا اور تمام پاکستانیوں کے ارمان آنسوؤں میں بہہ گئے۔ ہم پاکستانی ہاکی کے بھی چیمپئنز رہ چکے ہیں اور دنیا ہر پاکستانی کو اچھا ہاکی کا کھلاڑی سمجھا کرتی تھی۔ پھر دن بدن ایسی گراؤٹ آئی کہ آج ہمیں خود بھی یاد نہیں رہتا کہ ہم نے کبھی ہاکی کے کھیل میں راج کیا ہے۔ ہاکی کے علاوہ بھی اسکوائش، کبڈی، سنوکر وغیرہ میں ہم سر ِ فہرست رہنے کے اعزازات حاصل کرچکے ہیں لیکن جو پذیرائی کرکٹ کو پاکستان میں ملی، اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کی خاص وجہ متعدد نامور کرکٹرز تھے جنہوں نے غیر معمولی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ناموں کے ساتھ ساتھ ملک ِ پاکستان کے نام کو بھی چار چاند لگائے اور عظیم ملک کی شان میں اضافے کا باعث بنے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اُتارچڑھاؤ کا شکار بھی رہی پاکستان کی کرکٹ ٹیم لیکن آج بھی پاکستانی ٹیم کو کرکٹ کی دنیا میں ایک بہترین اور سخت حریف کے طورپر جانا اور مانا جاتا ہے۔
جس طرح ہاکی کے عروج کے زمانے میں ہر پاکستانی ہاکی کا کھلاڑی سمجھا جاتا تھا اسی طرح عرصہ دراز سے ہر پاکستانی کو کرکٹ کا شیدائی اور قابل اعتماد کھلاڑی سمجھاجارہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کرکٹ کھیلنے والے اور صرف دیکھنے والے، دونوں طرح کے لوگ پاکستان میں کرکٹ کھیل کی شاندار سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے آج ہر شخص تنقید کررہا ہے کہ پاکستانی کھلاڑی نئے معیار کی کرکٹ نہیں کھیل رہے۔ خصوصاً محدود اوورز کی کرکٹ میں 30-Yard Circleمیں جو Fieldersکی پوزیشن ترتیب دی جاتی ہے اس کے مطابق سرکل کے باہر دو ہی کھلاڑی ہوسکتے ہیں (پاور پلے کے دوران) پاور پلے کے علاوہ بھی پانچ کھلاڑیوں سے زیادہ سرکل سے باہر Fieldersکھڑے نہیں ہوسکتے۔ صرف اس قانون کے مطابق(حالانکہ بہت سے قوانین تبدیل ہوئے، جتنا زیادہ اس کھیل کو کمرشلائز کیاگیا) کرکٹ کے کھیل میں اتنی زیادہ تبدیلی یا جدت آئی کہ ٹیسٹ کرکٹ، ون ڈے کرکٹ، ٹی ٹونٹی کرکٹ اور T-10کرکٹ میں کھلاڑیوں کا انتخاب کرنے کا عمل بھی انتہائی ٹیکنیکل ہوگیا۔ پاور پلے کے اوورز کھیلنے والے کھلاڑیوں کو Power Play Specialist Battersاور اسی طرح پاور پلے میں اوورز پھینکنے والے بالرز بھی خصوصی حیثیت کے حامل بالرزسمجھے جانے لگے۔ تبدیلیاں بے انتہا ہوئیں جن کا ذکر ایک کالم میں بیان نہیں ہو سکتا لیکن جدید کرکٹ میں پاور پلے اور سپیشلسٹ کی مثال سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ آج جوکرکٹ کھیلی جارہی ہے، پاکستانی ٹیم میں وہ جدید کرکٹ کھیلنے والوں کا فقدان ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے پاس ایسے کھلاڑی موجود نہیں بلکہ ہمارے ساتھ مسئلہ انتخاب کا ہے جس میں خود غرضی دکھائی جارہی ہے۔
”بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی“۔ چند کھلاڑیوں اور Officialsکی خود غرضی و ہٹ دھرمی کی وجہ سے Most Deservingکھلاڑی پندرہ کی فہرست میں شامل نہیں ہورہے۔ ایسے Deservingکھلاڑیوں کی لسٹ کافی لمبی ہے لیکن صرف دو ہی کھلاڑیوں کے نام لینے سے حالات بدلتے دکھائی دیں گے۔ محمد حارث(وکٹ کیپر بیٹر) اور اُسامہ میر(Leg Spinner)شاندار کھلاڑی ہیں اور جدید کرکٹ کے ماہر ہیں۔ قدرتی صلاحیتوں سے مالا مال یہ کھلاڑی کئی بار ایسی کارکردگی دکھا چکے ہیں جس سے ان کے اندر موجود جذبہ وجنون چھپائے نہیں چھپ سکا۔ کمی بیشی ہر ایک میں موجود ہے اور انہیں کمی بیشیوں کو دور کرنے کے لئے بین الاقوامی معیار کے کوچز کو لاکھوں ڈالرز بھی ادا کئے جاتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ٹیلنٹ کو نکھارنے کے لئے جووقت وقف کیاجاتا ہے وہ نہیں وقف ہوتا، سینئرز کی اجارہ داری کی وجہ سے جونیئرز کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور اس سلوک کی وجہ سے قابل کھلاڑیوں کے ساتھ ہی قومی ساکھ کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ کسی نے پچاس یا سو کیا اور فوراً سجدہ ریز ہوگیا(بے شک سجدے کی قبولیت کا تمام معاملہ رب کریم، رب واحد کی مرضی میں پنہان ہے) لیکن کسی کے حق پر ڈاکہ ڈال کر اور پرانی کرکٹ کھیل کر اپنے لئے سورنز تو بٹور لئے اور ٹیم کو ہار کے کنویں میں ڈبو دیا یہ سراسر ناانصافی کا معاملہ ہے۔ دلوں میں کدورتیں پال کر کسی کے حقوق سلب کرنے سے کامیابی ہرگز حاصل نہیں ہوسکتی۔ لہذا ہمیں دنیا کا مقابلہ کرنے کے لئے جدید کرکٹ کھیلنی ہوگی اور تجددانہ صلاحیت کے حاصل کھلاڑیوں کا انتخاب کرنا ہوگا۔ ورنہ رونا دھونا اور ہزیمت ہی مقدر ہوگا۔
دوسری طرف ہمارے نامی گرامی کھلاڑی جو اپنے عروج کے وقت جب چاہتے تھے میچ جیت جاتے تھے اور جب چاہتے تھے ہار بھی جاتے تھے(یہ خاص بات ہے سمجھنے والوں کیلئے) مختلف نجی چینلز پر بیٹھ کرNon Cricketersکی میزبانی میں بیہودگی کے قصے بھی سنارہے ہیں اور بلا وجہ کی تنقید بھی کررہے ہیں حالانکہ دنیا کو یاد ہے کپتانی کی خاطر ان کی آپس میں عداوتیں اس قدر تھیں کہ انہیں ملک کی عزت وناموس کی بھی پرواہ نہیں تھی۔ آج پیسوں کی خاطر ٹی وی پر بیٹھ کر اپنی دوستی کے قصے(جوکہBelow the beltہوتے ہیں) سنارہے ہیں اور اک دوجے پر ہتک عزت کے دعوے بھی کورٹ میں کررہے ہیں۔ ان نام نہاد سینئرز کی اسیMentalityکی وجہ سے پہلے بھی غیروں کو تنقید کے مواقع ملے اور آج بھی یہ سلسلہ نہیں تھم سکا۔

Comments are closed.