تحریر: اعجازعلی ساغر اسلام آباد
چیمپئنز ٹرافی اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے جس کا میزبان پاکستان تھا اور بدقسمتی سے پاکستان کوئی میچ بھی نہ جیت سکا بھلا ھو بارش کا جس نے بنگلہ دیش کیخلاف ایک پوائنٹ دلادیا ورنہ یہ میچ بھی ہم ہار جاتے پوری چیمپئنز ٹرافی میں کھلاڑیوں کی باڈی لینگوئج تھکی تھکی لگی بیٹنگ,باؤلنگ,فیلڈنگ تینوں شعبوں پاکستانی ٹیم فلاپ نظر آئی پھر سونے پہ سہاگہ عبوری کوچ عاقب جاوید کی پریس کانفرنس تھی جس میں وہ کھلاڑیوں کا دفاع کرتے نظر آئے ظاہر ہے انہوں نے تو اپنی نوکری بچانی تھی پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے عجیب منطق پیش کی کہ تمام پلئیرز کو ملاکر بھی چار سو ون ڈے میچ نہیں بنتے ھماری ٹیم ابھی ناتجربہ کار ہے سیکھنے سے مراحل سے گزر رہی ہے یہی منطق کپتان محمد رضوان نے پیش کی کہ ہم ہار سے بھی سیکھتے ہیں اور مزید سیکھ رہے ہیں بندہ ان سے پوچھے کہ آپ کب تک سیکھیں گے یہ قوم لاکھوں,کروڑوں روپے آپ کے سیکھنے کیلئے نہیں دیتے بلکہ جیتنے کیلئے اپنے خون پسینے کی محنت سے ہر ماہ ادا کرتے ہیں۔
راقم یہ کالم ایک دو روز پہلے لکھ لیتا مگر دورہ نیوزی لینڈ کیلئے ٹیم کے اعلان کا انتظار کررہا تھا تاکہ قارئین کو سب کچھ بتایا جاسکے کہ کرکٹ کے نام پہ قوم کیساتھ کیسا کیسا کھلواڑ کیا جارہا ہے ٹیم کا اعلان ھوچکا ہے ٹی ٹئونٹی اسکواڈ میں محمد رضوان کو کپتانی سے ہٹادیا گیا ہے اور ان کی جگہ سلمان علی آغا کو کپتان بنایا گیا ہے جبکہ نائب کپتان اس کھلاڑی کو بنایا گیا ہے جسے تقریباً ایک سال سے ٹیم سے باہر رکھا ھوا ہے جی ہاں بات ھورہی ہے بہترین آل راؤنڈر شاداب خان کی جنہوں نے اپنی بہترین آل راؤنڈ پرفامنس کی وجہ سے لاکھوں شائقین سے بارہا داد سمیٹی ہے اس کے علاوہ وہ ایک بہترین فیلڈر بھی ہیں مگر گروپ بندی کی وجہ سے اس نوجوان کا کئیرئیر تباہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے بالکل اسی طرح سے جس طرح سے محمدعامر,عماد وسیم,عمر اکمل,شرجیل خان,حیدرعلی,عثمان خان,افتخار احمد,ماضی میں عاصم کمال,عمران نذیر اور نہ جانے کتنے ٹیلنٹڈ کھلاڑیوں کو نظر انداز کرکے گمنامی کی زندگی میں بھیج دیا گیا جب چیمپئنز ٹرافی سے قومی ٹیم ہاری تو قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ ٹیم میں بڑی سرجری کی جائے گی اور ٹیم میں گروپ بندی کے تاثر کو بالکل ختم کردیا جائے گا یہ گروپ بندی کوئی اب سے نہیں ہے راقم وسیم اکرم,وقار یونس اور معین خان کے دور سے کرکٹ کو دیکھ رہا ہے اور یہ گروپ بندی اس سے پہلے کی ہے اور اسکی وجہ سے سفارشی کلچر اور بورڈ میں سیاسی تعیناتیاں شامل ہیں۔
ٹی ٹئونٹی اسکواڈ میں باقی کھلاڑیوں میں شاہین شاہ آفریدی,حارث رؤف,عبدالصمد,حسن نواز,خوشدل شاہ,محمد حارث,جہانداد خان,محمدعلی,عمیر بن یوسف,سفیان مقیم,عثمان خان,محمدعباس آفریدی اور محمد عرفان خان شامل ہیں جبکہ ون ڈے اسکواڈ میں کپتان محمد رضوان,سلمان علی آغا (نائب کپتان) عاکف جاوید,ابرار احمد,عبدﷲ شفیق,بابراعظم,فہیم اشرف,خوشدل شاہ,امام الحق,طیب طاہر,محمدعلی,نسیم شاہ,محمد عرفان خان,وسیم جونئیر اور سفیان مقیم شامل ہیں,ان دونوں فارمیٹس کیلئے اسکواڈ میں چند ایک نئے چہرے متعارف کروا کر یا تگڑے سفارشیوں کو شامل کرکے چیمپئینز ٹرافی میں ہار کے داغ کو دھونے کی کوشش کی گئی ہے جو قوم کی آنکھوں میں دھول جھوکنے کے مترادف ہے اسکواڈ پر بات کرنے سے پہلے ذرا کوچنگ اسٹاف پر نظر دوڑاتے ہیں پچھلی لگاتار فلاپ سیریز کے باوجود ہیڈ کوچ عاقب جاوید کو برقرار رکھا گیا ہاں بس ان کے نام کیساتھ عبوری کوچ لگا دیا گیا ہے بیٹنگ کوچ محمد یوسف کو بنایا گیا ہے جو ایک اچھا فیصلہ ہے فیلڈنگ کوچ مسرور احمد جن کے نام سے شاید نئی جنریشن واقف ھوں ان کے بطور فیلڈنگ کوچ کون سی ایسی خدمات ہیں جن کو دیکھ کر انہیں فیلڈنگ کوچ بنایا گیا,باؤلنگ کوچ اظہر محمود کو بنایا گیا ہے جو اس ٹیم کیساتھ زیادتی ہے یہ نوازنے کا سلسلہ بند ھونا چاہیے عاقب جاوید گزشتہ دو دہائیوں سے کسی نہ کسی طرح بورڈ سے چمٹے ھوئے ہیں اب ان کو ریسٹ دینا چاہیے خدارا ان سے جان چھڑا لیں,باؤلنگ کوچ اظہر محمود کو بھی واپس کونٹی کرکٹ میں کوچنگ کیلئے بھیجنا چاہیے وہ بورڈ پر اور قومی خزانے پر بوجھ ہیں,فیلڈنگ کوچ کے سامنے بھی اب ہاتھ جوڑنے کا وقت آگیا ہے ھماری فیلڈنگ انتہائی خراب ھوچکی ہے ھمیں مسرور صاحب یا ان جیسوں کی ضرورت نہیں ہے چئیرمین پی سی بی کو چاہیے کہ وہ باہر سے تینوں کوچز اسٹاف لائیں جو پروفیشنل ھوں اور ان کو فل اختیارات دیے جائیں کہ اگر کوئی کھلاڑی ڈسپلن کی پابندی نہ کرے تو اسے ٹیم سے باہر کردیا جائے چاہے وہ کتنا بڑا پلئیر ہی کیوں نہ ھو۔
اب آتے ہیں کھلاڑیوں کی طرف تو پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے بابراعظم آؤٹ آف فارم جارہا ہے مگر ھم اسے پھر بھی کھلا رہے ہیں اور اسکی ساری توجہ کمرشلز پر ہے اسی طرح شاہین شاہ آفریدی جس کا برے رویے کی تمام کوچز شکایت کرچکے ہیں ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کوچنگ اسٹاف کی باتیں نہیں مانتے اور من مرضی کرتے ہیں خاص کر جب سے انہیں کپتانی سے ہٹایا گیا ہے تب سے ان کا رویے میں بہت تبدیلی آچکی ہے اور اسکی وجہ ان کے سسر شاہدآفریدی ہیں جو گاہے بگاہے بورڈ پر شاہین کو لیکر تنقید کرتے رہتے ہیں,حارث رؤف ان کی موصوف کی کارکردگی بھی برائے نام ہے مگر غصہ عروج پر ہے,طیب طاہر جن کو مسلسل مواقع دیے جارہے ہیں مگر مجال ہے کہ وہ پرفارم کریں لگتا ہے بہت تگڑی سفارش ہے تبھی کچھ نہ کرکے بھی دورہ نیوزی لینڈ کیلئے سلیکٹ ھوگئے,فخر زمان یہ بھی ایک ادھ اننگ اچھی کھیلتے ہیں اور باقی میچز میں تو چل میں آیا, فہیم اشرف یہ موصوف بھی ٹھیک ٹھاک پیسے والی پارٹی ہیں تبھی کارکردگی نہ ھونے کے باوجود ٹیم میں ان رہتے ہیں,اب آتے ہیں ھمارے پیارے کپتان محمد رضوان کی طرف جن کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ درویش صفت انسان ہیں کارکردگی بس گزارے لائق ہی ہے ہاں البتہ گروپنگ میں ماسٹر ہیں ان کی وجہ سے سرفراز احمد,محمد عامر,عمادوسیم اور دوسرے بہت سارے اچھے کرکٹرز کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے طیب طاہر کو چھوڑ کر باقی چاروں پانچوں کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ گروپ بندی کرکے باصلاحیت نوجوان کرکٹرز کو ٹیم میں زیادہ دیر نہیں ٹکنے دیتے اب وقت آچکا ہے کہ ان کو جبری رئٹائرڈ کردیا جائے اور ان سے جان چھڑا لی جائے اگر چئیرمین پی سی بی محسن نقوی چاہتے ہیں کہ ٹیم میں بہتری آئے ورنہ ہارنے کا نہ ختم ھونیوالا سلسلہ طویل ھوتا جائے گا۔
ھمیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ہم اپنے ہمسائے ملک انڈیا کو ہی لے لیں جو اس وقت آسٹریلیا سے سیمی فائنل جیت کر فائنل میں پہنچ چکا ہے وہ سفارشی کلچر کے خلاف ہیں ماسٹر بلاسٹر سچن ٹنڈولکر,سنیل گواسکر اور سارو گنگولی کے بچے بہترین پرفامنس دینے کے باوجود انتظار میں ہیں کہ پتہ نہیں کب ھماری باری آئے,پشت پہ اتنے بڑے نام ھونے کے باوجود انتظار کررہے ہیں اور ھماری طرف ہر چاچا ماما اپنا منڈا لائے کے بورڈ اچ وڑیا ھویا اے۔
آپ نومولود افغانستان کی کرکٹ ٹیم کو ہی دیکھ لیں ان کی کرکٹ دن بدن بہتر سے بہترین ھوتی جارہی ہے ان کے کھلاڑی ریکارڈز کے انبار لگارہے ہیں,اسی طرح نیوزی لینڈ,ساؤتھ افریقہ,بنگلہ دیش,زیمبابوے,آئرلینڈ اور حتیٰ کہ امریکا جیسی ٹیم بہتری کی جانب گامزن ہے اور انکے کھلاڑیوں کی پرفامنس دن بدن نکھرتی جارہی ہے جبکہ ھماری ٹیم گروپ بندی سے ہی باہر نہیں نکل رہی ھمارے کھلاڑیوں کی ساری توجہ کمرشلز اور لیگ کھیلنے پر ہے بس پیسہ آنا چاہیے چاہے ٹیم مسلسل ہارتی رہے۔
پچھلے غالباً دورہ انگلینڈ کے دوران تو یہ بات بھی سننے کو ملی تھی کہ کھلاڑی سیلفی کھینچوانے کے بھی پیسے چارج کررہے تھے یعنی پیسے دو اور سیلفی لو,ھمیں ان تمام کھلاڑیوں کو ٹیم سے باہر کرنا ھوگا ورنہ ہاکی کی طرح کرکٹ کا بھی بھٹہ بیٹھ جائے گا۔
وزیراعظم صاحب واقعی اب بڑی سرجری کی ضرورت ہے اور بڑی سرجری کرکٹ سے نابلد چئیرمین پی سی بی محسن نقوی کو چئیرمین کے عہدے سے ہٹایا جانا چاہیے کیونکہ یہ سرجری ان کے بس کی بات نہیں ہے جب سے وہ چئیرمین بنے ہیں سرجری سرجری کھیل رہے ہیں مگر پریکٹیکلی اس پہ کوئی عملدرآمد ھوتا نظر نہیں آرہا اور قومی ٹیم کی پرفامنس دن بدن خراب سے خراب تر ھوتی جارہی ہے آگے 2027 میں ورلڈکپ آرہا ہے اور ھمارے کھلاڑی اگر یونہی گروپ بندیوں کا شکار رہے تو ھم اس بڑے ایونٹ کے بھی پہلے راؤنڈ میں باہر ھوجائیں گے لہذا اس حوالے سے فی الفور ایکشن لیا جانا چاہیے دورہ نیوزی لینڈ کھلاڑیوں کیساتھ ساتھ چئیرمین پی سی بی کیلئے بھی آخری چانس ھونا چاہیے اگر ٹیم کی پرفامنس یہی رہتی ہے تو پھر کھلاڑیوں کیساتھ ساتھ محسن نقوی صاحب سے بھی معذرت کرلینی چاہیے کہ وہ اب یہ عہدہ چھوڑ دیں اور کسی پروفیشنل آدمی کو بطور چئیرمین پی سی بی آنے دیں۔
امید ہے وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف جو پیٹرن انچیف ہیں وہ کرکٹ ٹیم میں بڑی سرجریوں کیلئے خود میدان میں آئیں گے اور ٹیم اور بورڈ میں بڑی تبدیلیاں کرکے ٹیم کو وننگ ٹریک پر چڑھائیں گے۔
Comments are closed.