جعفر ایکسپریس حملہ: حقائق اور ردعمل سامنے آنا چاہئے

تحریر: شہزاد حسین بھٹی

پاکستان ایک بار پھر دہشت گردوں کے نشانے پر ہے، اور اس بار ہدف بنی ہے جعفر ایکسپریس، جس پر ہونے والا حملہ کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ اس حملے کو گزرے 24 گھنٹے سے زائد ہو چکے ہیں، لیکن اب تک اس کی مکمل تفصیلات عوام کے سامنے نہیں آ سکیں۔ دشمن ملک بھارت اور مغربی میڈیا اس واقعے کو مسلسل رپورٹ کر رہے ہیں، جبکہ پاکستان میں معلومات کی کمی نے افواہوں اور قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے۔

اب تک کی اطلاعات کے مطابق جعفر ایکسپریس میں 444 مسافر سوار تھے، جن میں سے 100 سے زائد کا تعلق سیکیورٹی اداروں سے تھا۔ 104 افراد کو بازیاب کرایا جا چکا ہے جبکہ 22 حملہ آوروں کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔ غیر مصدقہ ذرائع کے مطابق سبی اسپتال میں کچھ فوجی جوانوں کی شہادت کی اطلاعات ہیں، لیکن سرکاری سطح پر ان دعووں کی تصدیق یا تردید نہیں کی جا رہی۔ یہ اطلاعاتی خلا کئی خدشات کو جنم دیتا ہے۔ ایک طرف، حکومت اور سیکیورٹی ادارے ممکنہ طور پر مکمل حقائق سامنے لانے سے پہلے تصدیق کر رہے ہیں تاکہ کوئی غلط معلومات نہ پھیلائی جائے۔ دوسری طرف، اس خاموشی سے دشمن کو پروپیگنڈہ کرنے کا موقع مل رہا ہے، جس سے عوام میں بے چینی پیدا ہو رہی ہے۔

یہ حملہ ایک عام دہشت گردی کا واقعہ نہیں لگتا، بلکہ اس میں منظم منصوبہ بندی دکھائی دیتی ہے۔ اگر واقعی ٹرین میں اتنی بڑی تعداد میں سیکیورٹی اہلکار موجود تھے، تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ دہشت گردوں کو اس بارے میں پیشگی اطلاع کیسے ملی؟ اس حملے میں دو ممکنہ پہلو نمایاں ہیں: کیا دہشت گردی کے خطرے کا پہلے سے اندازہ نہیں لگایا جا سکا؟ یا اگر خطرہ موجود تھا تو مناسب سیکیورٹی اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟ دہشت گردوں نے جس طرح ٹرین پر حملہ کیا، اس سے لگتا ہے کہ انہیں نہ صرف مقامی جغرافیے کا علم تھا بلکہ وہ سیکیورٹی کی نقل و حرکت سے بھی آگاہ تھے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ انٹیلیجنس کی ناکامی تھی یا دہشت گردوں کی چالاکی، لیکن یہ واضح ہے کہ دشمن ہمارے کمزور پہلوؤں کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہا ہے۔

جعفر ایکسپریس حملے کے بعد بھارتی میڈیا اور مغربی نیوز نیٹ ورکس نے اس واقعے کو پاکستان میں سیکیورٹی کی ناکامی کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔ چونکہ پاکستانی حکومت اور ادارے فوری طور پر کوئی واضح بیان نہیں دے سکے، اس لیے دشمن میڈیا اپنی مرضی کا بیانیہ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں جب قومی سطح پر خاموشی نے دشمن کو فائدہ دیا ہو۔ ماضی میں بھی جب بروقت وضاحت نہیں دی گئی، تو غیر ملکی میڈیا نے اپنی من پسند کہانیاں تراش لیں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ میدانِ جنگ صرف بندوق سے نہیں جیتے جاتے، بلکہ معلوماتی جنگ بھی اتنی ہی اہم ہے۔ اگر ہم نے دشمن کے پروپیگنڈے کا بروقت اور مؤثر جواب نہ دیا تو عالمی سطح پر ہمیں نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ عوام کو سچ کب اور کیسے بتایا جائے گا؟ کیا حکومت یا عسکری قیادت کوئی واضح مؤقف دے گی؟ کیا میڈیا کو اس معاملے پر حقائق فراہم کیے جائیں گے تاکہ وہ قیاس آرائیوں سے بچ سکیں؟ پاکستانی عوام دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمیشہ اپنی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ کھڑی رہی ہے۔ آج بھی قوم یکجہتی کے ساتھ اپنے اداروں کے پیچھے کھڑی ہے، لیکن ساتھ ہی حقائق تک رسائی بھی عوام کا بنیادی حق ہے۔ اگر حکومت اور سیکیورٹی ادارے جلد از جلد ایک واضح اور مستند مؤقف دیں، تو نہ صرف عوام میں پائی جانے والی بے یقینی ختم ہو گی بلکہ دشمن کے پروپیگنڈے کا بھی مؤثر جواب دیا جا سکے گا۔

جعفر ایکسپریس پر حملہ پاکستان کے خلاف ایک کھلی جنگ کا تسلسل ہے۔ اس جنگ میں ہمیں صرف بندوق نہیں، بلکہ سچائی، مؤثر اطلاعاتی حکمت عملی اور قومی یکجہتی کے ساتھ لڑنا ہوگا۔

Comments are closed.