دن نہ بدلے مگر غر یبوں کے

از: ڈاکٹر ابراہیم مغل

Dr.-Ibraheem-Mughal

درست کہ وفاقی حکومت نے پٹرول کی قیمت میں 9 روپے فی لیٹر اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں سات روپے فی لیٹرکمی کا اعلان کیا ہے، جب کہ پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی جوکہ آئی ایم ایف سے طے تھی،اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔اور بھر اس کے ساتھ ہی وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرنا پڑ رہا ہے، بجلی مہنگی کرنا آئی ایم ایف کی شرط ہونے کے ساتھ گردشی قرضوں کی وجہ سے ہماری ضرورت تھی۔ ایک جانب تو پاکستان اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان معاہدے کے مثبت اثرات سامنے آنا

شروع ہو گئے ہیں۔ آئی ایم ایف معاہدے سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوم برگ کی پاکستان کے حوالے سے مثبت رپورٹ اور حکومت کی عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط پر سختی کے ساتھ عملدرآمدکی پالیسی سے اچھی خبریں آنے کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔ یہ فوری مالیاتی بندوبست توسیعی فنڈ سہولت کے تحت عالمی مالیاتی ادارے کے 2019ء میں شروع ہونے والے پروگرام کی آخری تاریخ تک تجدید نہ ہو پانے کی وجہ سے عمل میں لایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں بہتری آئی ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشی بحالی کے پچھلے دنوں منظر عام پر آنے والے اس نہایت اہم حکومتی منصوبے میں بھی تیز رفتار پیش رفت متوقع ہے، جس کے تحت

زراعت، معدنیات، توانائی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی وغیرہ جیسے ترقی کے ضامن شعبوں میں ون ونڈو آپریشن کے تحت چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر وغیرہ جیسے دوست ملکوں کی جانب سے بیرونی سرمایہ کاری کے راستے کھول دیے گئے ہیں اور جس میں افواج پاکستان بھی سیکیورٹی کی ضمانت اور کئی دیگر حوالوں سے معاون ہوں گی۔ دوسری جانب آئی ایم ایف سے معاہدے کا یہ پہلو نہایت

تکلیف دہ اور اذیت ناک ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کا یہ مالیاتی بندوبست عوام کو فوری ریلیف نہیں دے گا۔ 215 ارب روپے کے نئے ٹیکس، نیز بجلی اورگیس کی قیمتوں میں مزید اضافے سے مہنگائی اور بڑھے گی۔ اس چیلنج کا مقابلہ مراعات یافتہ حکمراں طبقات، وفاقی و صوبائی وزراء، پارلیمانی ارکان اور ججوں سمیت تمام اعلیٰ سول افسروں کی بے پناہ مراعات ختم کر کے کیا جانا چاہیے۔ پاکستان جیسے مالی مسائل سے دوچار ملک کے حکمراں طبقات کی مراعات انتہائی ترقی یافتہ اور دولت مند ممالک سے کہیں زیادہ ہیں اور حالات کا تقاضا ہے کہ انھیں جلد ازجلد معقول سطح تک کم کیا جائے۔ معاہدے کے باوجود ملکی معیشت کے لیے خطرات کم نہیں ہوئے، یہ معاہدہ محض دیپاچہ

ہے،کیونکہ اس معاہدے کے نتیجے میں جو رقم ملے گی اسے حکومت اپنے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال نہیں کرسکے گی، نہ سبسڈیز دی جائیں گی۔ یہ معاہدہ ایک کڑا امتحان ہے۔ ایک جائزے کے مطابق جی ڈی پی میں ٹیکس آمدنی کی شرح 1980 کی دہائی میں 13.4 فیصد سے مسلسل کم ہوتے ہوئے سال 2023میں 8.5فیصد رہ گئی ہے، لہٰذا ایک ٹیکس چورکلچر کی موجودگی میں مالی خسارہ کم

کرنا کسی معجزے سے کم نہیں، جب کہ سرکار کے بے پناہ اخراجات بھی کم نہ ہوں گے۔یہ بات تو ریکارڈ پر ہے کہ ہمارے ملک میں امرا کی مراعات و مستثنیات 4000 ارب روپے سے زیادہ ہیں۔ حالیہ سالانہ بجٹ میں مالی خسارے کا تخمینہ جی ڈی پی کا 6.5 فیصد لگایا گیا ہے،

جب کہ سود کی ادائیگی پر خرچہ 6.9 فیصد ہوگا۔ اس معاملے میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے وزیر خزانہ نے خوش گمانی یہ پیدا کی ہے کہ 88 فیصد قرض تو داخلی ہے جو ہمارے ہاتھ میں ہے، بیرونی قرضوں کی ری شیڈولنگ ہوسکتی ہے۔ کم از کم 38 ارب ڈالر کے دو طرفہ قرضے کی ادائیگی لمبے عرصے کے لیے آسان بنائی جاسکتی ہے۔ دیگر اخراجات سب ملا کر 2500 ارب روپے ہیں۔ گرانٹس اور ٹرانسفرز تیسرا بڑا

خرچہ ہے۔ وہ وزارتیں اور شعبے جو 18 ویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کا حصہ نہیں رہے، ان پر 1.4 فیصد اخراجات اٹھ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ اخراجات آئینی ہیں یا غیر آئینی؟ وفاق سے جو وزارتیں صوبوں کے حوالے کی گئی ہیں، ان کے اکاؤنٹس سمیت تمام معاملات

صوبوں کے حوالے کیے جائیں، اس سے وفاق کے اخراجات میں ایک فیصد کمی ہوسکتی ہے۔ ترقیاتی بجٹ سارے کا سارا قرض سے پورا کیا جاتا ہے، جب کہ ترقی اور معاشی نمو متعین سرمایہ کاری سے ممکن ہے۔ یہ تمام غیر پیداواری اخراجات آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا بوجھ عوام پر ڈالے بنا بھی کم کیے جاسکتے تھے۔ اصل مشکل یہ ہے کہ جو امرا ٹیکس دینے اور مراعات چھوڑنے کو تیار نہیں وہ مالِ غنیمت کو

کیوں چھوڑیں گے جس کی عنایات سے پاکستان کے اُمرا کی جدید کاروباری بستیاں آباد ہیں! اُمرا ٹیکس دینے کو تیار نہیں، نہ ریاست خرچے کم کرنے کو تیار ہے تو 9 ماہ بعد پھر دیوالیہ ہونے کا معاملہ ہمارے سامنے کھڑا ہوگا۔ آئی ایم ایف کی شرائط کی روشنی میں تقریباً 450 ارب روپے کے نئے ٹیکس بھی لاگو ہو چکے ہیں۔ ریاست پر بوجھ بنے ہوئے بیمار سرکاری اداروں کی نجکاری کا عمل بھی شروع ہونے والا ہے۔

پنشن کے خاتمہ کی ابتدا بھی ہوا چاہتی ہے، سرکاری ملازمین کی طے شدہ شرائط ملازمت میں بھی تبدیلیوں کا عمل شروع ہو چکا ہے، شرح سود میں 1 فی صد اضافہ پہلے ہی کردیا گیا ہے اس طرح 22 فی صد شرح سود کے ساتھ کاروبار تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ شنید ہے کہ آئی ایم ایف شرح سود کو مزید بڑھانے پر زور دے رہا ہے گویا معاشی ترقی کا احیا سر دست ممکن نہیں ہو گا، 90 لاکھ سے زائد نفوس پہلے بھی

خط غربت سے نیچے جا چکے ہیں۔ ہماری قومی اقتصادی صورتحال لاریب شدید مشکلات میں دھنسی ہوئی ہے جب کہ انفرادی معاشی صورتحال کا تو کچھ نہ ہی کہیں تو بہتر ہے، سادہ روٹی 25 روپے اور خمیری روٹی 30 روپے کی ہوچکی ہے، سادہ خوشبو والا پان 25/30 روپے سے بڑھ کر 50 روپے کا ہوگیا ہے۔ اشیاء خورونوش کی قیمتیں پہلے ہی بلندی پر جا چکی ہیں۔ آئی ایم ایف کی نئی شرائط کے مطابق

وصولیوں کے اہداف میں بلندی کیسے حاصل کی جائے گی؟ یقینا ٹیکسوں کے ذریعے۔ اور یہ ٹیکس وصولیاں کس سے کی جائیں گی؟ یقینا عوام سے، عام آدمی سے، عام صارف سے۔ کیونکہ صنعتیں اور بڑے کاروبار پہلے ہی بربادی کا شکار ہیں۔ اس لیے ان سے تو وصولیاں ہونے سے رہیں۔ ٹیکس وصولیوں کا بوجھ عام آدمی کو ہی اٹھانا ہوگا۔ مہنگائی کا سب سے آسان شکار سرکاری ملازم ہوتا ہے، ٹیکسوں میں

اضافے کا بوجھ بھی سب سے زیادہ سرکاری ملازم ہی اٹھاتا ہے سرکاری ملازم پہلے ہی اپنی تنخواہوں اور پنشن میں کم اضافے پر پریشان ہیں۔ پنجاب حکومت نے اس اضافے میں بھی کمی کر دی ہے 35 فی صد اضافے کو 30 فی صد اور پنشن کے 17.5 فی صد اضافے کو 5 فی صد کر کے سرکاری ملا زمین سے زیادتی کی انتہا کر دی ہے۔ سرکاری ملازمین کی ایسی بے اطمینانی، کار سرکار پر بھی بری طرح اثر

انداز ہو گی۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ حکمران اور پالیسی ساز اس بات پر سنجیدگی سے توجہ دیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے برے اثرات پر قابو پانا تو مانا کہ ان کے بس میں نہیں لیکن سرکاری ملازمین پر تنخواہوں اور پنشن میں بڑھوتی پر کٹ نہ لگا کر ان کے مصائب میں اضافہ نہ کرنا تو ان کے ہاتھوں میں ہے۔ آئی ایم ایف کی ہر شرط منظور کرتے ہوئے عوام کے لیے غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے مسائل میں ہوشربا اضافہ کردیا گیا ہے۔ اس وقت عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ ہر خاص و عام اس عفریت سے لرزتا دکھائی دیتا ہے۔

کوئی دن نہیں گزرتا جب اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ نہ ہوتا ہو۔ اب تو صبح قیمت کچھ ہوتی ہے اور شام کو کچھ۔ مہنگائی میں تیزی سے اضافے کے باعث پاکستان دنیا کا چھٹا مہنگا ترین ملک بن گیا ہے۔ درحقیقت قرض کی مے پی کر اپنی فاقہ مستی پر اِترانے کے بجائے ہمیں معیشت کی مستقل بحالی اور قرضوں کے جنجال سے جان چھڑانے کے علاوہ غریب عوام کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے

لیے طویل مدتی مستقل معاشی پالیسی کی ضرورت ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم بطور قوم کمر کس کے اپنی تمام تر توجہ معاشی دلدل سے نکلنے پر مرکوز کر دیں۔ معاشی اصلاحات کے ساتھ اندازِ زندگی بدلنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے، ہمیں چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کی عادت اپنانا ہوگا۔ موجودہ قومی اور صوبائی حکومتوں کی آئینی مدت ایک ماہ میں ختم ہونے والی ہے جس کے بعد نگراں حکومتیں معاملات سنبھالیں گی

اور پھر تین ماہ میں عام انتخابات کے بعد نئی منتخب حکومتیں وجود میں آئیں گی۔ معاشی بحالی کے ہموار عمل کے لیے ضروری ہے کہ ان کی پالیسیاں یکساں ہوں، لہٰذا ملک کی تمام سیاسی قوتوں اور ریاستی اداروں کا ایک معاشی پروگرام پر متفق ہونا ناگزیر ہے، اور لازم ہے کہ اس سمت میں بلا تاخیر پیش رفت کا آغاز ہو۔ جلد از جلد ایک میثاقِ معیشت پر متفق ہوجانا پائیدار معاشی بحالی اور مالیاتی استحکام کے تسلسل کا لازمی تقاضا ہے۔

Comments are closed.