گذشتہ حکومت اور موجودہ حا لا ت

Caretaker Government Pakistan

قا رئین کرام، اس میں دو رائے نہیں کہ سبکدوش حکومت نے انتہائی مشکل حالات میں کام کیا ہے۔ یہ وہ حالات تھے جب معاشی بحران اپنی انتہاؤں کو چھو رہا تھا۔ ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں اعلیٰ سطح پر بھی ہو رہی تھیں ایسے حالات میں سبکدوش حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کرنے میں کامیابی حاصل کی جس کی وجہ سے دوست ممالک نے بھی مدد کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا یوں پاکستان دیوالیہ ہونے کے خطرات سے باہر نکل آیا۔ سبکدوش ہونے والی حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تو اس وقت پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں تھا اتحادی حکومت نے بہتر حکمت عملی اختیار کر کے ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک کو مطمئن کیا جس کی وجہ سے پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکال دیا گیا۔ بہر حال سابق حکومت کے دور میں مہنگائی میں غیر معمولی اضافہ ہوا پٹرولایل پی ٹی بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کی وجہ سے عام آدمی بری طرح متاثر ہوا کیونکہ توانائی کے ذرائع مہنگے ہونے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ ہوا یوٹیلٹی بلز بڑھنے سے متوسط طبقے کا گھریلو بجٹ اتھل پتھل ہو گیا۔ سبکدوش حکومت نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ ان کے دور میں مہنگائی بڑھی ہے جس سے عوام کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ اب ملک کی باگ ڈور نگران حکومت کے ہاتھ میں چلی گئی ہے ابھی وفاق میں کابینہ کی تشکیل نہیں ہوئی ہے تاہم یہ کام بھی جلد پورا ہو جائے گا۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں پہلے سے نگران سیٹ اپ کام کر رہا ہے سندھ اور بلوچستان میں بھی نگران سیٹ اپ ایک دو روز میں مکمل ہو جائے گا۔نگران حکومتوں کی اولین ذمے داری حکومتی نظام کو مختصر مدت کے لیے آئین و قانون کے مطابق چلانا ہے اور عام انتخابات کے پرامن انعقاد کو یقینی بنانا ہے اور اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کے ساتھ اچھی ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنا ہے۔عنقریب سیاسی جماعتیں الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہو جائیں گی۔ پاکستان میں یہ تیسرا موقع ہے جب ایک منتخب جمہوری حکومت نے اپنی آئینی ٹرم پوری کی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ ریکارڈ برقرار رہا کہ کوئی منتخب وزیراعظم اپنی آئینی مدت مکمل نہیں کر سکا۔اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ تاہم جمہوری عمل آئین اور قانون کے مطابق جاری رہا ہے۔ گو، وزیراعظم آئینی مدت مکمل نہیں کر سکا تاہم اصل چیز اسمبلیاں ہیں، اسمبلیوں اور منتخب حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ نگران وزیر اعظم اپنی کابینہ میں کون سے چہرے شامل کرتے ہیں۔ اس وقت سب کی نظریں وزارت خارجہ اور وزارت خزانہ پر لگی ہوئی ہیں۔ ملک کا نگران وزیر خارجہ کون ہو گا اور نگران وزیر خزانہ کون ہو گا، اس کے بعد ہی نگران حکومت کی ترجیحات کے بارے میں کوئی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ نگران حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس کی غیر جانبداری سارے اسٹیک ہولڈرز تسلیم کریں تاکہ الیکشن کا عمل اور اس کے نتائج متنازعہ نہ ہوں اور ملک کی خارجہ پالیسی اور معاشی پالیسی میں بھی تبدیلی نہ ہو۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، قرضوں کا بوجھ، گرتے ہوئے زرِ مبادلہ کے ذخائر اور سر اٹھاتا ہوا توانائی کا بحران ان چند چیلنجوں میں سے ہیں، جن کا سامنا نگراں حکومت کو کرنا پڑے گا۔ملک کا کاروباری طبقہ اور عالمی مالیاتی ادارے اس پہلو سے نگراں حکومت کو دیکھیں گے کہ وہ ملک کے معاشی پہئے کو کس طرح چلائے گی اور خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی کرے گی یا نہیں؟ سیاست دانوں کے نزدیک نگران حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج آزادانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد کرانا ہے، اگر انتخابات شفاف نہ ہوئے، تو ہم اس کا ذمے دار نگراں حکومت کو گردانیں گے لہٰذا نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کو یقینی بنائے تاکہ الیکشن کے نتائج کو متنازعہ نہ بنایا جا سکے۔ اتحادی حکومت نے جاتے جاتے الیکشن ایکٹ 2023 منظورکیا ہے، جس کی شق 230 کی ذیلی شق 2 اے میں ترمیم شامل ہے جس کے تحت نگران حکومت کو اضافی اختیارات حاصل ہوگئے ہیں۔ ترمیم کے تحت نگران حکومت معیشت کے لیے ضروری فیصلے کر سکے گی، اسے عالمی مالیاتی اداروں اور غیرملکی معاہدوں کا اختیار بھی ہو گا۔ ادھر نئی مردم شماری کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہو چکا ہے۔ قانونی حلقے کہہ رہے ہیں کہ اب آئین کے آرٹیکل 15 (1) کے سب سیکشن 5 کے تحت الیکشن کمیشن از سر نو حلقہ بندیاں کرانے کا پابند ہے اور حلقہ بندیوں کا کام 120دن میں ہونا ہے۔ اس حوالے سے بھی آئینی الجھن پیدا ہونے کا احتمال ظاہر کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ الیکشن نوے روز میں کرانے لازم ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن نوے روز سے پہلے نئی مردم شماری کے مطابق ازسرنو حلقہ بندیاں کرنے میں کامیاب ہو جائے گا، اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر کیا ہو گا؟ ادھر نئی حلقہ بندیاں بھی لازم ہو چکی ہیں۔ اگر ان میں تاخیر ہوتی ہے تو پھر آئینی پوزیشن کیا ہو گی؟ یہ سوال قانونی حلقوں میں زیربحث ہے۔ بہرحال معاملات کچھ بھی ہوں، یہ حقیقت ہے کہ عام انتخابات سر پر آ پہنچے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان میں مردم شماری ہمیشہ سے متنازعہ رہی ہے، ہر مردم شماری کے نتائج سیاست کی نذر ہوجاتے ہیں، 2017 کی مردم شماری کے نتائج بھی تنازعات کا شکار ہوگئے تھے لہٰذا دوبارہ مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا گیا، اس فیصلے پر رواں برس عمل درآمد ہوا۔ حالیہ مردم شماری کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری ہے۔ اس کا مقصد 2017 کی مردم شماری سے جڑے تنازعات کا خاتمہ اور شفاف طریقے سے آبادی کو شمارکرنا تھا جس کے نتائج پر تمام اسٹیک ہولڈرزکو اتفاق ہو۔ دوسری جانب آئینی و قانونی ضرورت اور اس کے تقاضوں سے بھی صرف نظر ممکن نہیں، بنابریں کوئی ایسا موزوں راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ آئین و دستور کے تقاضے بھی پورے ہوں اور نئی مردم شماری کے حوالے سے تحفظات کا بھی خاتمہ ہو۔ ملک کو مشکل حالات سے نکالنے کے لیے نگران حکومت کو بھی اپنا کام کرنا ہو گا، موجودہ حالات میں بننے والی نگران حکومت کو ماضی کی طرح کام نہیں کرنا ہے، نگران حکومت کے وزیراعظم اور اس کی کابینہ کو یہ حقیقت مدنظر رکھنی چاہیے کہ یہ ذمے داریاں اپنے اندر یہ احساس بھی رکھتی ہیں کہ نگرانوں کو تنخواہیں اور مراعات عوام کے ٹیکسوں کی مد میں سے دیے جا رہے ہیں۔ نگرانوں کا کام غیرجانبدارانہ اور شفاف انتخابات کرانے کے ساتھ ساتھ معیشت کو بھی درست رکھنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔ اگر انتخابی عمل اور نتائج پر سوال اٹھے تو اس کی افادیت ختم ہو جائے گی۔ فیئر پلے ہونا چاہیے۔ پاکستان میں الیکشن کرانا کبھی بھی آسان نہیں رہا ہے۔ اب تک جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں ان کے نتائج پر سوالات اٹھتے رہے ہیں پاکستان میں یہ سیاسی کلچر بن گیا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت یہ نہیں تسلیم کرتی کہ عوام کی اکثریت نے اسے ووٹ نہیں دیا جو پارٹی ہارتی ہے وہ نگران حکومت پر بھی جانبداری کا الزام عائد کرتی ہے الیکشن کمیشن کو بھی ہدف تنقید بناتی ہے اور اداروں پر بھی انگلی اٹھانے سے دریغ نہیں کرتی۔ یقینا اس کی وجوہات بھی ہیں پاکستان میں الیکشن کے دوران مداخلت ہوتی رہی ہے تاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ پچھلے چند الیکشن میں تمام تر تحفظات کے باوجود سیاسی جماعتوں نے پارلیمنٹ میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ملک کی سیاسی قیادت پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جمہوری اصولوں کی پاسداری کریں الیکشن میں کسی کی جیت ہونی ہوتی ہے اور کسی کی ہار بھی یقینی ہوتی ہے اصل چیز جمہوری اصولوں کی پاسداری کرنا اور آئین کے مطابق اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اگر سیاسی قیادت جمہوری اقدار پر کاربند رہنے کا عہد کرے تو تمام تر تحفظات کے باوجود جمہوری عمل چلتا رہے گا۔

از: ڈاکٹر ابراہیم مغل

Dr.-Ibraheem-Mughal

Comments are closed.