میرے گاؤں کی پہلی قانون دان بیٹی

Shahid Ewan

بلاتامل، شاہد اعوان

اگر میں اپنے لڑکپن کی بات کروں یا مجھ سے بڑی عمر کے لوگوں کی بات کی جائے تو اس زمانے میں دیہاتوں میں بنیادی ضروریات کی سہولیات ناکافی تھیں آمدورفت کے لئے ٹرانسپورٹ ناپید تھی، کاشتکاری کے قدیم ذرائع اور تعلیم کے لئے چنداں ہائی سکول ایک بڑا ذریعہ تعلیم تھے لہٰذا کالج اور اعلیٰ تعلیم کے لئے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا تھا۔ تب غربت بھی انتہاکی تھی اور سب سے بڑھ کر اکثریت والدین ان پڑھ تھے میٹرک کے بعد لڑکوں کو شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا تھا اور واحد ملازمت فوج میں بھرتی عام ٹرینڈ تھا، جبکہ لڑکیوں کے لئے قرآن پاک کی ناظرہ تعلیم کو اعلیٰ تعلیم کا درجہ حاصل تھا بچی کی عمر ابھی دس سال ہوئی نہیں والدین کو اس کی شادی کی فکر دامن گیر ہو جایا کرتی تھی بہت کم خاندان ایسے تھے جن کی بیٹیاں تعلیم کے زیور سے آراستہ تھیں ورنہ عموماٌ مائیں ان پڑھ تھیں البتہ وہ لڑکیاں جن کے والدین روزگار کے لئے بیرون ممالک یا بڑے شہروں میں جا بسے ان کی بیٹیاں پڑھ لکھ گئیں۔ ہمارا گاؤں کھوئیاں، تلہ گنگ کا پسماندہ ترین گاؤں تھا جو آج اکیسویں صدی میں گاؤں کے چند ہونہار اور پرعزم نوجوانوں کی مثبت سوچ کی وجہ سے ضلع تلہ گنگ کا نامی گرامی گاؤں بن چکا ہے۔ کھوئیاں کا ایک خاندان جس کے سربراہ معروف ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر شہباز خان ملک ہیں، نے اپنے سارے خاندان کو اعلیٰ تعلیم دلوانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور آج ان کے خاندان کے درجنوں لڑکے اور لڑکیاں ڈاکٹر ہیں۔ فقیر کی طرح بہت سے لوگ محض بچوں کی تعلیم و تربیت کی خاطر بڑے شہروں میں شفٹ ہو گئے ہیں انہی میں ایک ملک محمد افضل مرحوم بھی تھے جن کے دادا بابا جیون خان اور ان کے والد ملک غلام رسول جو ’میٹ‘ کے نام سے مشہور تھے۔ ملک افضل نے اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلانے کی ٹھانی اور اس مقصد کے لئے انہوں نے قدیمی ضلع اٹک کو 2000ء میں اپنا مسکن بنانے کا فیصلہ کیا وہ اپنی بیٹی نوشین افضل کو اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتے تھے اور اسے ایف ایس سی کے بعد وکالت کرانا چاہتے تھے شومئی قسمت ملک محمد افضل کو 2007ء میں دل کی تکلیف ہوئی، دونوں باپ بیٹی کی شدید خواہش تھی کہ نوشین اپنے گاؤں کی پہلی وکیل بنے۔ نوشین کے چچا جاوید ذیشان بتاتے ہیں کہ نوشین ذہین ہے اور اسے وکالت کا بے حد شوق ہے۔ جب ارادے پختہ ہوں تو پھر اللہ کی مدد بھی شاملِ حال ہو جایا کرتی ہے، سو ایسے ہی ہوا ملک افضل علاج کے لئے سرگودھا میں تھے اور ان کے بچے اٹک میں تھے ایف ایس سی نتائج کا اعلان ہونا تھا نوشین کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا کہ اس کی منزل قریب آ رہی تھی جس کے بارے میں اس کے پورے خاندان نے سوچا ہوا تھا۔ وہ خود جا کر ابو کو سرپرائر دینا چاہتی تھی لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اس رات نیند نوشین سے کوسوں دور تھی اور رات طویل ہوتی جا رہی تھی۔ ملک افضل فجر کی نماز پڑھ کر کچھ دیر کے لئے سونے کا کہہ کر کمرے میں چلے گئے جب سورج طلوع ہوا تو گھر والوں نے انہیں جگایا تو وہ اس دیس روانہ ہو گئے تھے جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔۔۔ ادھر نوشین بار بار ابو کو فون ملا رہی تھی اسے بتایا گیا کہ وہ آرام کر رہے ہیں۔ یہ سانحہ اس قدر اچانک تھا کہ ایک طرف خوشیاں تھیں تو دوسری جانب کہرام مچا ہوا تھا۔ ملک افضل کی میت سرگودھا سے تلہ گنگ کے لئے روانہ ہوچکی تھی اور اٹک سے دیگر اہل خانہ اپنے گاؤں کے لئے نکل چکے تھے۔ نوشین خوشی سے نہال تھی کہ کب گاؤں پہنچے اور ابو کو اپنی شاندار کامیابی کی خبر سناؤں۔ جب سب لوگ گاؤں پہنچے تو گھر میں کہرام مچا ہوا تھا نوشین کے سارے خواب چکنا چور ہو چکے تھے وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھی اس کا مستقبل تاریک ہو گیا تھا۔ ملک افضل کے قُل تھے اور ایل ایل بی کے داخلے کا آخری دن تھا۔۔۔ نوشین تعلیم کو خیر باد کہنا چاہتی تھی مگر اس کی والدہ اور چچا نے سمجھا بجھا کر اسے داخلے کے لئے راضی کر لیا۔ چند روز قبل نوشین کی ایل ایل بی میں اعزازی نمبروں سے پاس ہونے کی خبر ملی تو اپنے گاؤں کی پہلی بیٹی کو قانون کی ڈگری ملنے پر انتہائی خوشی ہوئی۔ نوشین اپنے مرحوم والد کے خواب کو پورا کرنے کے لئے جج بننے کا ارادہ رکھتی ہے، دعا ہے اللہ اس کے ان روشن ارادوں کو جلا بخشے اور وہ ناصرف اپنے والدین، خاندان بلکہ پورے گاؤں کے لئے مثالی بیٹی ثابت ہو جس پر ہم سب فخر کر سکیں۔

Comments are closed.