انووک: ثناء آغا خان
عورت کا اپنے اپنے معاشرے کی تعمیروترقی میں کلیدی کردارفراموش نہیں کیا جاسکتا، یہ صنف نازک کئی قسم کی ہوشرباصلاحیتوں سے نواز ی گئی ہے۔ تصویر کائنات میں سارے حسین اورانمٹ رنگ اسی کے دم سے ہیں۔
عورت نے انسانی زندگی کے تمام ارتقائی مراحل میں مرد کے شانہ بشانہ ا پنامنفرد اورموثرکردار منوایا ہے۔ دنیا کی ہر قدیم سے قدیم تہذیب اس بات کی شہادت دے گی کہ اس دور کی عورت باصلاحیت تھی،تخلیق کار تھی،پختہ کار تھی، جفاکش تھی، بہادر تھی، باہمت،ہنرمنداور حوصلہ مند تھی۔
ہڑ پہ، موہن جو دڑو اور مصری تہذیب کوسیراب کرنے میں اس عہد کی پرجوش خواتین نے اپنا خون اور جنون شامل کیا۔ میدان تجارت میں سرگرم حضرت حدیجہؓ ہوں، حضرت عائشہ ؓ ہوں یا تحریک قیام پاکستان کی روح رواں حضرت فاطمہ جناح ؒ ہوں،مادروطن کی ننھی پری ارفعٰ کریم ہو، مصری شہزادی افر دیتی ہو یا قلو پطرہ، فرانس کی جون آف آرک ہو یا ہندوستان کی چاند بی بی، سب نے اپنی خوبیوں اورخداداد صلاحیتوں سے اپنی بصیرت،فہم وفراست، عصمت اور بہادری کی داستانیں رقم کی ہیں۔ عہد عباسی میں ملکہ خیزران اور ملکہ زبیدہ کا کردار اسلامی تاریخ کا سنہری باب ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں رضیہ سلطانہ اور نور جہاں کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ اے میر ی ہم وطن خواتین! بیدارہوجاؤ، اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے، اپنی زندگی کے گلشن کی خود آبیاری کرو۔
اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کیلئے، اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کیلئے، اس معاشرے سے اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے ہماری ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں کو اپنے اندر سے ہر خوف کو نکال باہرکرنا ہوگا۔ اپنے اندر کی عورت کو جگانا ہوگا، جو بہت توانا،دانا، مضبوط، طاقتور اور نڈر ہے۔
اے میرے وطن کی بہنوں! تمہاری حفاظت کیلئے ملکی قوانین موجود ہیں۔ محتسب اور جج عدالتوں میں آپ کی عظمت و عصمت کاپہرہ دینے کیلئے براجمان ہیں۔ آپ کو ان قوانین سے جوآپ کیلئے بنائے گئے ہیں آگاہ رہنا ہوگا۔ آپ کو اپنے حقوق اورفرض کا ادراک ہونا چاہیے۔ پاکستان کی بیٹیو علم کی روشنی سے اپنے کردار کو روشن کرو۔ آپ کی روشن کی ہوئی ایک مشعل تاریک سیاہ راتوں کے خاتمے اورنویدسحر کا اعلان ہوگی۔
جاگو اور دیکھو وقت آپ کے روبرو فریاد کناں ہے۔ کوئی معاشرہ عورت کے کردار کے بغیر تعمیروترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں کر سکتا۔ خواتین نے سماجی ترقی کیلئے ہر کردار کو بخوبی اوربااحسن نبھایا ہے۔ جدید دور میں سماجی تعمیر میں عورت کا کردارانتہائی اہمیت کاحامل اور ناگزیر ہے۔
سیاسی، معاشی اور معاشرتی ترقی عورت کے کردار کے بغیر ادھوری ہے۔ جو معاشرے عورت کو عزت اور اس کا جائز مقام نہیں دیتے وہ ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اگرچہ تاریخ میں عورت کو اس کا جائز مقام نہیں دیا گیا اوراب بھی خواتین پررشک کرنے کی بجائے ان سے حسد کیاجاتا ہے، مخصوص سوچ کے حامی مردحضرات کوکامیاب عورت سے عداوت کیوں ہے،میں بحیثیت عورت یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں۔
عورتیں معاشرے کے پسماندہ اور پسے ہوئے طبقات میں شمار ہواکرتی تھیں۔ غلام مردوزن اور عورتوں کو معاشرے کے محروم ترین طبقہ سمجھا جاتا تھا لیکن اب صورت حال یکسر مختلف ہے۔ اب عورتیں ملکوں کی حکمران اورکئی ریاستی ونجی اداروں کی سربراہان بھی ہیں۔عورت کو سٹیٹ بنک کی ہیڈ بھی بنایاگیا۔پروفیشنل خواتین افواج پاکستان سمیت دنیا کی مختلف سپاہ میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔ کھیلوں کے میدان میں بین الاقوامی سطح پر کامیابیاں سمیٹ کر ملک و ملت کا نام روشن کر رہی ہیں۔ غرض زندگی کا کوئی میدان نہیں جس میں عورتیں پیچھے ہوں۔
آج کی عورت جاگ گئی ہے،اب یہ کسی کے ڈر سے میدان چھوڑکربھاگ نہیں سکتی۔ اس کا شعور پوری طرح بیداراوریہ توانائیوں سے سرشار ہے۔ آج کی خواتین اپنے حقوق پہچان گئی ہیں۔اب عورتوں کو اپنے حقوق کیلئے بھیک نہیں مانگنا پڑتی بلکہ وہ ضرورت پڑنے پر اپنا حق چھین بھی سکتی ہیں۔
اب کسی عورت کی پکار پر محمد بن قاسم نہیں آئے نہ آئے خواتین ضرور اس کی مدد کیلئے امڈآئیں گی۔ آج کی عورت اپنے بل بوتے پر ہرظالم سماج اورفرسودہ رواج کا مقابلہ کر ناجان گئی ہے۔آج کی عورت اپنے تحفظ کیلئے خود سیسہ پلائی دیوار بن گئی ہے۔ آج کوئی عورت اپنا استحصال برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔اے میرے وطن کی بہادر اور نڈر بیٹیو! میری بہنو! دیکھو وقت کی نبض پر ہاتھ رکھواور بازی اپنے حق میں پلٹ دو۔
سب سے اہم اور ضروری بات جس کی بدولت انسان اپنی منزلت برقرار رکھتا ہے وہ اس کی معاشی حیثیت کی مضبوطی ہے۔اسلام کے سوا دوسرے تمام مذاہب نے عورت کو معاشی حیثیت سے کمزور کیا ہے لہٰذاء عورت کو اس معاشی بے بسی کوبدلناہوگا کیونکہ عورتوں کی معاشی کمزوری غلامی کی سب سے بڑا سبب بنتی ہے۔معاشی ضرورتوں اورمجبوریوں نے عورت کو ایک خودکفیل فرد بنا دیا ہے۔
اسلام تو اعتدال کا راستہ اختیار کرتا ہے۔عورت کا ملازمت کرنا مرد کی طرح سخت رویوں کاسامنا اورانہیں برداشت کرنا،لوگوں کی نظروں کو نظر انداز کرنا شائد اب اتنا معیوب خیال نہیں کیا جاتا ہے۔حضرت خدیجہؓ جو اسلام کی پہلی تجارت سے وابستہ خاتون تھیں۔حضرت صفیہ کا میدان جنگ میں دشمنوں کا قلع کم کر کے کامیابی کے جھنڈے گاڑنا اس بات کا ثبوت ہے کہ عورت کا ملازمت کرنا معیوب نہیں ہے لیکن لباس کی تمیز کوفراموش نہ کرتے اور رائج اصولوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے اجازت دی گئی ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے:” اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار نہ کرتی پھرو”عورت کا خود کو چھپانا اتنا ہی اہم ہے جتنا زندہ رہنے کیلئے سانس۔مگر افسوس آج کا انسان اس واضح غلط فہمی کا شکار ہے کہ پردہ داری ایک غیر ضروری امر ہے دنیاوی مسائل پردہ داری سے کئی زیادہ توجہ کے طلب گار ہیں اور کچھ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ صرف مولویوں تک محدود ہے اور انہی کی دقیانوسی باتیں ہیں۔
یہ باتیں تو ناولز میں ہی اچھی لگتی ہیں مگر میں بتاتی چلوں کہ قرآن پاک میں بیشتر مقامات میں پردے کا بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کسی انسان کی ایجاد نہیں ہے۔چونکہ معبود برحق کا حکم ہے اسلئے غیر ضروری ہرگزہرگز نہیں ہے۔جب کوئی فنکار اپنے فن پارے کو اپنی مرضی کے بغیر ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں دیتا تو وہ ربّ اپنے تخلیق کیے ہوئے بندوں کے بارے میں کس طرح ایسارویہ پسند کر سکتا ہے۔میری بہنو!خوش رہو،ہم اپنی حدود کے اندررہتے ہوئے بھی زندگی کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہو سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماراحامی وناصر ہو۔آمین
Comments are closed.