پروقار: وقار احمدباجوہ
دنیا کے پسماندہ ملکوں کے لوگ تلاش معاش اورباعزت روزگار کیلئے اپنی زندگی اورآزادی تک داؤپرلگانے پرمجبور ہیں،ان کااپنے روشن مستقبل کے خواب شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے وہ بنداورتاریک گلی میں جانکلنا بعدازاں ان میں سے متعدد کی جان نکال دیتا ہے۔انسانوں کی اسمگلنگ انسانیت کیلئے ناقابل برداشت ہے، اس مجرمانہ روش کوہرصورت روکنا ہوگا۔
حالیہ تیس جولائی کو اقوام متحدہ کے زیراہتمام دنیا بھر میں انسانی اسمگلنگ کیخلاف عالمی دن منایا گیا ہے۔اس دن کا مقصد جدید دور کی غلامی کے گمبھیر مسائل کے بارے میں شعور اجاگر اورموثر منصوبہ بندی کرنا تھا،جو بیشتر اوقات جبری مشقت کی شکل اختیار کرتا ہے۔
رواں برس اس دن کا موضوع رہا”انسانی اسمگلنگ کے شکار ہر فرد تک رسائی یقینی بناناہوگی، کسی کو بھی پیچھے نہ چھوڑیں “۔ اس دن حکومتوں، قانون نافذ کرنیوالے اداروں، سرکاری اداروں اور سول سوسائٹی سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کو یقینی بنانے کیلئے اپنا کلیدی کرداراداکریں۔ متاثرین کی بروقت اور بھرپور مدد کرنے کے ساتھ ساتھ سزاؤں کے نظام کو یقینی بنایاجائے۔
پاکستان کے تناظر میں اس دن کی اہمیت ویسے بھی کئی گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے جہاں انسانی اسمگلنگ کے نتیجہ میں پیش آنیوالے حالیہ دلخراش سانحات نے کئی انسانی المیوں کو جنم دیا ہے اور سماج میں اس خطرناک اورشرمناک برائی کیخلاف پوری شدت سے آوازیں بلند کی گئی ہیں۔
رواں سال کے آغاز میں یو این او ڈی سی نے انسانی اسمگلنگ پر اپنی 2022 ء کی عالمی رپورٹ جاری کی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے عالمی لائحہ عمل کے تحت اپنی نوعیت کی اس چھٹی رپورٹ میں 141 ممالک کا احاطہ کیا گیا ہے اور 2017 ء سے 2021 ء کے درمیان سامنے آنے والے کیسز کی بنیاد پر عالمی، علاقائی اور قومی سطح پر انسانی اسمگلنگ کے نمونے اور بہاؤ کو پیش کیا گیا ہے۔رپورٹ میں انسانی اسمگلنگ سے متعلق سب سے بڑا ڈیٹا بیس استعمال کیا گیا ہے، جس میں 2003 ء سے 2021 ء کے درمیان دنیا بھر میں گرفتار کئے گئے ساڑھے چار لاکھ سے زیادہ متاثرین اور تین لاکھ مشتبہ مجرموں کا احاطہ کیا گیا ہے، جو اسمگلنگ میں منظم جرائم کے گروہوں کے کردار کو اجاگر کرتا ہے۔
اس بات کا تذکرہ بھی لازم ہے کہ عالمی سطح پر انسانی اسمگلنگ کے شکار افراد کی تعداد میں 11 فیصد کمی دیکھی گئی ہے، تاہم اس کے اسباب میں کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں محدود ادارہ جاتی صلاحیت، کووڈ 19 کے تناظر میں اسمگلنگ کے مواقع میں کمی اور زیادہ خفیہ مقامات پر کام کرنے والے اسمگلرز شامل ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے باوجود مغربی اور جنوبی یورپ، وسطی ایشیاء، وسطی اور جنوب مشرقی یورپ کے ساتھ ساتھ شمالی امریکہ جیسے علاقوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔کووڈ 19 وبائی صورتحال نے اسمگلنگ سے وابستہ مخصوص سرگرمیوں کو بھی کافی حد تک تبدیل کیا، اسے مزید زیر زمین دھکیل دیا اور ممکنہ طور پر حکام کی نظروں میں آنے کے امکانات کو کم کرتے ہوئے متاثرین کیلئے خطرات میں اضافہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق 41 فیصد متاثرین جو انسانی اسمگلروں کے شکنجے سے بچنے میں کامیاب رہے، نے اپنی پہل پر حکام سے رابطہ کیا،یہ ایک اور واضح علامت کہ انسانی اسمگلنگ کے خلاف ردعمل کم پڑ رہا ہے۔
انسانی اسمگلنگ کیخلاف عالمی ردعمل کی بات کی جائے تو حالیہ عرصے میں کئی ممالک نے اس حوالے سے موثر اقدامات اٹھائے ہیں۔ عمان نے ایک نئے قانون کا مسودہ تیار کرنے کا کام مکمل کر لیا ہے، جس میں منشیات اور جرائم سے متعلق اقوام متحدہ کے دفتر کے تعاون سے بین الاقوامی اور مقامی ماہرین دونوں کی بصیرت شامل ہے۔
کینیا نے اس قسم کی مجرمانہ سرگرمیوں سے نمٹنے کیلئے انسانی اسمگلنگ سے متعلق قومی لائحہ عمل کا آغاز کر دیا ہے۔چین نے بھی خواتین اور بچوں کی اسمگلنگ کیخلاف سخت کریک ڈاؤن کیا ہے اور رواں سال “دو اجلاسوں ” کے دوران قومی قانون سازوں اور سیاسی مشیروں نے اس موضوع پر تعمیری تبادلہ خیال کیاہے۔
ویسے بھی چین نے خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کو بہت اہمیت دی ہے اور خواتین اور بچوں کی اسمگلنگ کی روک تھام میں اہم پیشرفت ان پالیسیوں کا ثمر ہے۔یہ امر بھی انتہائی خوش آئند ہے کہ 2013ء سے 2021ء تک چین میں انسانی اسمگلنگ کے جرائم کی تعداد میں 88.3 فیصد کمی نوٹ کی گئی ہے۔
اس کامیابی کا سہرابیشک چینی حکومت کی زبردست کاوشوں اور کثیر الجہتی میکانزم کے نفاذ، بین الاقوامی تعاون میں اضافے اور چینی معاشرے کے تمام شعبوں میں انسانی اسمگلنگ کیخلاف ابھرنے والی قوتوں کو جاتا ہے۔چین کی کوشش ہے کہ اس مسئلے کی بنیادی وجوہات سے نمٹتے ہوئے اسے جامعہ انداز میں اورمستقل بنیادوں پر حل کیا جائے اور مربوط ورکنگ میکانزم سے انسانی اسمگلنگ کی لعنت کا اس کی روٹ کاز سے خاتمہ کیا جائے۔
ا س ضمن میں ہمارے ہمسایہ اوردوست ملک چین کا موقف بڑا واضح ہے کہ انسانی اسمگلنگ کیخلاف جنگ ایک منظم منصوبہ ہے جس کیلئے مشترکہ اورمنظم کاوشوں کی اشد ضرورت ہے۔
پروقار: وقار احمدباجوہ
Comments are closed.