بھٹو کا وفادار

Bhutto

 زرداری کا جانثار | پاکستان اپنے قیام کیساتھ ہی مسلسل مشکلات کا شکار رہا قائداعظم کی وفات کے بعد جو لیڈرشپ کا بحران پیدا ہوا اس خلا کو پورا کرنے کیلئے پاکستان کو کئی چںیلنجز کا سامنا رہا مارشل لاء لگے سیاسی و معاشی تنزلی ہوئی اس مسلسل ارتقاء میں ذوالفقار علی بھٹو جیسی عظیم شخصیت نے جنم لیا بھٹو نے اپنی بہترین سیاسی حکمت عملی اور قائدانہ صلاحیتوں سے پاکستانی سیاست کو ایک نیا رخ دیا
بھٹو شہیدکی سیاست نے ایسے سیاسی ورکرز اس سسٹم کو دئیے جس سے پاکستانی سیاست نے ایک نیارخ اختیار کیا مگر المیہ یہ رہا کہ سرمایہ دارانہ پراگندگی سے جہاں اخلاقی اقدار اور روایات کا خاتمہ ہوا وہاں نظریات بھی دفن ہوگئے محبت بھائی چارہ اور دکھ سکھ کی روایات بھی زوال سے دوچار ہوئیں ایک دہائی سے زائد عرصہ ہونے کو آیا حالات میں کوئی ہہتری دکھائی نہیں دے رہی سیاست، معشیت وتجارت اقتصادیات کے ساتھ ساتھ ہر شے تہس نہس ہو گئی ۔ اندرونی،بیرونی محاذ کی طرف نظر اٹھائیں تو چار سو ایک زوال کی سی صورتحال ہے ایک دور تھا کہ سیاسی و جمہوری نظام حکومت میں کارکنوں کا احترام تھا سٹڈی سرکل ہوا کرتے تھے ۔پارٹیوں میں مختلف ونگز کام میں مصروف نظر آتے تھے ۔ لیڈر ورکرز کا خیال کیا کرتے جب جب سیاسی حکومتیں قائم ہوتیں پارٹیاں سیاسی کارکنان کو عزت و تکریم دیکر عوام کی خدمت کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتیں اور کارکنان یوں نظریے و اصول کی فکر انگیز جدوجہد کرتے پاکستان پیپلز پارٹی میں پیپلز یوتھ آرگنائزیشن، لیبر آرگنائزیشن، مزدور کسانوں کی تنظیمیں ہوا کرتیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ ختم ہوتا گیا سیاسی رواداری رہی نہ کارکنوں کا احترام نہ رہا سرمایہ دارانہ نظام نے ایسے نظام کو پروموٹ کیا کہ جو حکومتوں میں کروڑوں روپے دیکر سرمایہ داروں کا عمل دخل ہوتا گیا اور ایک طرف تو جمہوری کلچر زمین بوس ہوا بلکہ سیاست میں عام طبقات کے سیاسی کارکنان کا کردار بھی ختم ہوتا گیا بہرحال انھی حالات میں 8 فروری 2024 کے انتخابات کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ سیاسی کلچر میں حکومتوں کی تشکیل ہوئی اس تشکیل نو میں علیحدہ علیحدہ نظریات رکھنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اتحاد کرکے مرکز اور صوبوں میں حکومتیں قائم کرلیں حکومتوں کی تشکیل ہونے کے بعد صدر مملکت کا انتخاب ہوا اور یوں یہ سرمایہ دارانہ جمہوری نظام رواں دواں ہے اس نظام میں بےشمار خامیاں ہوسکتی ہیں لیکن پیپلز پارٹی کسی حد تک آج بھی نظریے کی جماعت گردانی جاتی ہے اس جماعت میں آج بھی کارکنوں کو عزت و تکریم دینے کی روایات موجود ہیں 2008 میں سید یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم بنایا جانا پھر راجہ پرویز اشرف کو وزارت اعظمی کے منصب پر فائز کرنا یوسف چاند جیسے کارکنوں کو نوازنا اسی طرح کی بےشمار مثالیں ہیں آج بھی جب حکومتی عمل کی تشکیل نو پر غور کریں تو پیپلز پارٹی ہی واحد جماعت ہے جو کارکنوں کی ہرصورت حوصلہ افزائی کرتی دکھائی دیتی ہے ایسی ہی ایک مثال پیپلز پارٹی سے دیرینہ وابستگی رکھنے والی شخصیت سید یسین آزاد ہیں جہنوں نے ہر عہد میں پیپلز پارٹی کے نظریے کا پرچار کیا اور اس کے لیے جدو جہد بھی کی پھر اس جدوجہد کی پاداش میں انکی قربانیوں کا تذکرہ کریں تو ایک طویل تاریخ ہے پنجاب بھر میں کونسی جیل ہے جس میں وہ بھٹو شہید کے نظریے کی جدوجہد کرتے ہوئے قید و بند نہ رہے ہوں سید یسین آزاد کی قربانیوں اور جدوجہد کی ایک لازوال داستان ہے جس پر مورخ لکھتا رہے گا۔ سید غلام یاسین آزاد (سابقہ رابطہ آفیسر براہ وزیر اعظم (پاکستان) سابقہ جنرل سیکرٹری پیپلز یوتھ آرگنائزیشن (پنجاب) ذوالفقار علی بھٹو کا ایک ایسا جیالا ہے جس نے پرشان کن حالات میں زبردست شاندار خوشگوار حیرت انگیز جدوجہد کی اسکی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ انہوں نے بےحال اور پریشان حال پارٹی کارکنان کو ان کے گھروں میں جا کر روزگار جیسی نعمت سے نوازا ان کی قومی سماجی سیاسی ورثے والی خدمات ناقابل فراموش ہیں
سید یسین آزاد کہیں دیار غیر میں نہیں رہتے اسی ملک میں رہتے ہیں یہاں ہی انہوں نے ہوش سنبھالا، یہیں سیاست و کاروبار کئے۔ زندگی اتار چڑھاؤ کا نام ہے وہ مسلسل پاکستان کھپے کے نظریے کے امین رہے ہیں انکو موجود عہد میں دی جانے والی عزت و تکریم سیاسی ورکرز کے لئے باعث حوصلہ ہوگی واضع رہے کہ محترمہ بنظیر کی شہادت کے بعد بھٹو کی پیپلزپارٹی اپنی سیاسی اہمیت کھو رہی ہے ایسے میں پیپلزپارٹی کا جیالوں کی خدمات حاصل کرنا جہاں خوش آئند ہے وہاں پارٹی کے اندر ایک نئی روح پھونکنے کا شاندار عمل ہے میں بطور بھٹو کا ورکر سمجھتا ہوں کہ سید غلام یاسین آزاد جیسی مدبرانہ شخصیت شاندار خوشگوار حیرت انگیز طبیعت کے مالک ہیں ہمدردی اور لحاظ ان کے خون میں شامل ہے ایوان صدر میں سیاسی امورِ کا شعبہ اگر ان کے سپرد کیا جائے تو اس عمل سے کارکنوں کی تشفی ہوگی اس منصب پر فائز ہونے کے بعد کارکنوں کو بےمثال لاجواب سہارا مل جائے گا امید ہے بلاول بھٹو اپنے اس کارکن کو ایوان صدر تک ضرور لے جائیں گے ایک ایسی شخصیت ایک ایسا احساس جس نے نظریے کی پاکستان پیپلز پارٹی کے نظریات آبیاری کے لئے بھرپور جدوجہد کی سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو(شیہد رانی) کے جانثار ورکرز میں انکا شمار ہوتا ہے وہ ایک عہد میں وفاقی مشیر ٹیلی کمیونیکیشن وزیر اعظم پاکستان رہے پیپلزیوتھ کے مرکزی رہنماء تھے ۔ جناب سید یاسین آزاد ہیں جنکو اس وقت ایوان صدر میں بطور مشیر برائے اصلاح سیاسی ورثہ بنائے جانے کا امکان ہے سید یاسین آزاد نے لاہور کے شاہی قلعہ میں جان لیوا تکلیفوں کا سامنا کیا ایسی تکالیف اور اذیتوں کے تسلسل میں قسمت والے ہی زندہ واپس آتے ہیں وہ جب وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو (شہید رانی) کے دور میں مشیر ٹیلی کمیونیکیشن تھے تو لاتعداد کارکنان کو احترام دیا اور روزگار کی فراہمی ممکن بنائی کارکنان کی دل جوئی کرتے اور ان کی بات سنتے انکے تاریخی سیاسی سفر میں ان کی تربیت کا کمال تھا کہ انہوں نے تاریخی اہمیت کا تہذیبی ثقافتی سماجی سیاسی ورثے والا عظیم الشان کردار ادا کیا۔
انہوں نے جموریت کی بحالی کے ساتھ ساتھ آصف علی زرداری کی رہائی کے لیے رہائی کمیٹی کی بنیاد رکھی احتجاجی مظاہروں کو ترتیب دینے میں بھرپور کردار ادا کیا
پاکستان کی آواز پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کارکنوں کے علاوہ
دوسری جماعتوں کے سماجی سیاسی ورثے والی شخصیات کو عزت بخشی
کارکنوں کا گھر جا کر ملازمتیں دی
پنجاب بھر کی جیلوں میں قید رہے
انہوں نے کمزور پہلوؤں سے گریز کیا
عزت احترام والی شخصیت کے مالک تھے ہمدرد ہیں اس لیے کہ ہمدردی اور لحاظ ان کے خون میں شامل ہے
انہیں ایوان صدر میں مشیر برائے اصلاح مقرر کیا جانا اس تسلسل کا آئینہ دار ہے جس کا ہم تذکرہ کرچکے ہیں سید یسین آزاد سلجھے ہوئے تجربہ کار اور بیمثال شخصیت ہیں ایوان صدر میں تعیناتی پر وہ بےمثال پرخلوص کردار ادا کر سکتے ہیں انکی ایوان صدر میں موجودگی سے امید ہے پارٹی کارکنان کو بھی راحت و شادمانی ملے گی اور سید غلام یسین آزاد ایوان صدر کے احترام اضافہ کرنے کا باعث بھی بنین گے
یہ پوسٹ اپنے پیارے بھائی جان فرخ مرغوب سائیں کے نام منسوب ہے جن کی شرافت انسان دوستی وضع داری نقش عالم پر ثبت ہے

Comments are closed.