بلاتامل: شاہد اعوان
خالہ ماں کا دوسرا روپ ہے۔۔۔ یوں تو فقیر کی خالہ تعدادمیں تین تھیں تینوں ہی سے پیار و محبت کا اٹوٹ رشتہ تھا لیکن ماں جی کے بعد سب سے زیادہ اور خالص پیار جس خالہ سے ملا وہ خالہ ’ملکانی‘ تھیں چونکہ بچپن ان کے ہاں گزرا تھا وہ سراپا محبت تھیں۔ نانی اماں کی وفات کے بعد انہوں نے اتنا پیار دیا کہ نانی کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ اس زمانے میں گڑکی ایک ”روڑی“ بچے کے لئے کسی بڑے انعام سے کم نہ ہواکرتی تھی دیسی گھی میں گندھی چوری کی خوشبو آج بھی بچپن بلکہ ننھیال کی حسین یادیں تازہ کر دیتی ہے۔ جب کبھی والدہ کے ساتھ ننھیال جانا ہوتا تو والدہ نانی کے گھر رک جاتیں اور میں اپنی خالہ کا لاڈلہ بن کر ان کی گود میں چلا جاتا ان کے ہاں مزے مزے کے کھانے ملتے، مکھن،لسی، تندور کی روٹیاں اور پیار بھری لوریاں ہر شے وافر ملتی۔۔۔ یہ سب دیکھتے دیکھتے لڑکپن میں قدم رکھا تو ہر ویک اینڈ پر خالہ کی محبت کھینچ کر ان کے ہاں لے جاتی، بے سروسامانی میں دس بارہ کلومیٹر کا ملتان خورد سے ڈھوک جنوال تک پیدل سفر یوں کٹ جاتا جیسے ایک گلی سے دوسری گلی جانا ہو۔ کبھی کٹھن اور طویل راستے کی صعوبتیں ان رشتوں کے درمیان حائل نہ ہوئے ماہئے ڈھولے گاتے گاتے دور سے ننھیالی گاؤں کی جھلک جونہی آنکھوں میں پڑتی تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ ہوتا۔ اس زمانے میں خط یاتار واحد ذریعہ ابلاغ تھا لیکن نانی اور خالہ کو جیسے غیبی قوت سے ہمارے آنے کا اشارہ ہو جاتا نہ جانے کیسے ان کو ہماری آمد کی اطلاع پہلے سے ہو جایا کرتی۔۔۔ سب سے پہلے میرے قدم نانی کی چوکھٹ پر پڑتے اور پھر خالہ کی قدم بوسی کرتا۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے کہ بچہ ہمیشہ اسی کی طرف بھاگ بھاگ کر جاتا ہے جہاں سے اسے خالص اور سچی محبت ملتی ہے یہی معاملہ میرے ساتھ تھا سکول سے چھٹی کا روز عیاشی کا دن ہوتا تھا خوب مہمان نوازی ہوتی۔۔۔ ہائے کیا خوبصورت دن تھے جنہیں لاکھ بھولنا بھی چاہیں تو بھلایا نہیں جا سکتابقول شاعر
تمہیں بھلانا اول تو دسترس میں ہی نہیں
جو اختیار بھی ہوتا تو کیا بھلا دیتے !
خالہ ملکانی اپنے نام کی طرح واقعی ”ملکانی“ تھیں دل کی امیر، حالانکہ اس زمانے میں وسائل بہت کم ہوا کرتے تھے لیکن وسائل کی کمی رشتوں کے آڑے کبھی نہیں آئی۔ ڈھوک جنوال کی خواتین پینے کا پانی بھرنے اور کپڑے دھونے کے لئے لگ بھگ دو کلومیٹر دور ایک برساتی نالے ’پاتری‘ میں جایا کرتی تھیں بچے بھی ان کے ہمراہ ہو جاتے تھے خواتین کپڑے دھوتیں بچے نہاتے اور مستیاں کرتے۔ خواتین تین تین گھڑے اٹھا کرواپس گھر لوٹا کرتیں مجال ہے کسی عورت کی زبان سے صدائے احتجاج نکلے یا خفگی کا اظہار ہو، کتنی صابر تھیں اس زمانے کی عورتیں جو اپنے خاوندوں کے لئے صبح دس بجے کھیتوں میں کھانا پہنچانا، کنالوں پر محیط وسیع و عریض کچے صحنوں میں جھاڑو لگانا، مکانوں کی مٹی کالیپ کرنا، دیواروں پر سفیدی کی جگہ پوچے کو گھول کر لگانا یہ سب خواتین کی گھریلو ذمہ داریوں میں تھا جسے وہ پوری دلجمعی سے انجام دیتیں۔ ’پردیسی‘ ہونے کے بعد جب بھی گاؤں جانے کا پروگرام بنتا تو سب سے پہلے ننھیال میں حاضری یقینی ہوتی جہاں اسی طرح منتظر خالائیں اور اکلوتے ماموں موجود ہوتے۔ ڈھوک جنوال محبت کرنے والوں کا مسکن ہے پچاس گھرانوں پر مشتمل ان بخت آوروں کو ابھی تک زمانے کی ہوا نہیں لگی ہر خوشی غمی پر سارا گاؤں یکجان ہو جاتا ہے اکسیویں صدی میں بھی ان کے اطوار نہیں بدلے ہیں ان کا یہ اتفاق دیکھ کر رشک آتا ہے جہاں گاؤں کی خواتین خوشی یا غمی والے گھر کو خود سنبھال لیتی ہیں وہاں مرد حضرات بھی اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں رہتے۔ 24جون2023ء کا دن ماں جی کی وفات بعد میری زندگی کا ایک اور برا دن تھا جب مجھے برادرم ملک بشیر نے فون پر خالہ ملکانی کی وفات کی خبر دی جسے سن کر بچپن سے جوانی اور بڑھاپے تک زندگی کی ساری فلم چل پڑی۔ خالہ جی پچھلے9سال سے بیمار تھیں اب ان کی ہمت ٹوٹ چکی تھی بیماری کے دوران ان کے داماد ملک بشیر نے انہیں اپنی والدہ کی طرح اپنے گھر تلہ گنگ میں رکھا جب کبھی ان کا اکلوتا بیٹا خالد انہیں واپس گاؤں لے جاتا تو وہ چند ہفتوں کے بعد خالہ کو واپس اپنے گھر لانے پہنچ جاتے خالہ کی جتنی خدمت اس گھرانے نے کی شاید ایسی خدمت کسی اولاد کے حصے میں نہ آئی ہو۔ وفات سے کچھ عرصہ قبل جب میری خالہ جی سے آخری ملاقات گاؤں میں ہوئی تھی تو وہ بستر کے ساتھ لگ چکی تھیں بہت نحیف اور لاغر ہوچکی تھیں انہوں نے ناصرف مجھے پہچانا بلکہ اٹھنے کی ناکام کوشش بھی کی تھی۔اللہ کریم ان کے درجات بلند فرمائے۔
ماں مَری تے پیکے مُک گئے
پیکے ہوندے مانواں نال
ہمارے علاقہ میں خالہ کو ”ماسی“کہا جاتا ہے اس لفظ کا مطلب اب جا کر ٹھیک سے سمجھ آیاہے کہ آخر اس رشتے کو ”ماں۔سی“ کیوں کہاجاتا ہے۔
Comments are closed.