از: ڈاکٹر ابر اہیم مغل
قا رئین کرا م، مجھے یقین ہے کہ ہر محبِ وطن پا کستانی کی طر ح آ پ بھی وطنِ عزیز میں جا ری معا شی کشمکش کے با رے میں فکر مند ہوں گے۔ تو آ پ کی طر ح میں بھی اس صورتِ حا ل پہ تذبذب اور فکر مند ی کا شکا رہوں۔ تاہم جب میں اس معا شی گھمبیر تا کے حل کے با رے میں سوچتے ہوئے چا روں جا نب نظر یں دوڑاتا ہوں تو مجھے اپنے موجو دہ وزیرِ خزا نہ اسحق ڈار سے بہتر کو ئی چو ا ئس نظر نہیں آ تی۔ اور یہ بات میں انتہا ئی ذ مہ داری سے عرض کر رہا ہوں۔ لیکن اس وقت جو کچھ وطن میں ہو رہا ہے، اسے دیکھ کر انتہا ئی تکلیف ہو تی ہے۔ وہ یوں کہ منفی قوتوں نے پوری شدت سے اسحق ڈا ر کو اپنا ہد فِ تنقید بنا یا ہوا ہے۔ اس تما م تر عمل میں مفتا ح اسماعیل پیش پیش ہیں۔ وہ تا ثر دے رہے ہیں کہ اسحاق ڈار نے پاکستان کو معاشی طور پر شد ید نقصان پہنچا یا ہے۔یہ کہ آئی ایم ایف سے قسط نہ ملنے کی بھی تمام تر ذمے داری انہی پر ہی عائد ہوتی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جو بھی غلط ہوا ہے، اس کے ذمے دار وہی ہیں۔اس کے بر عکس اسحٰق ڈا ر کا کہنا ہے ہمیں آئی ایم ایف کے سامنے ہا تھ جوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہمیں آئی ایم ایف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنی چاہیے اس کا اب مذاق بنایا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اسحاق ڈار کو پاکستان کے حالات کا علم ہی نہیں تھا۔ وہ حقائق سے بے خبر تھے۔ اس لیے انہوں نے ایسے بیانات دیے۔ اسحاق ڈار کے خلاف یہ ماحول بنانے میں تاہم اس چپقلش میں مفتاح کی اپنی سیاست بھی ختم ہو گئی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے ڈار صاحب کی ساکھ کو بھی بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اسی طرح شبرزیدی اور دیگر معاشی ماہرین نے اسحاق ڈار کے ساتھ اپنے پرانے اسکور خوب برابر کیے ہیں۔ سب مل کر ڈار صاحب کو رگیدتے رہے ہیں اور ان کے لیے اکیلے یہ لڑائی لڑنا مشکل ہو گئی۔ وہ کام کریں یا روزانہ ہونے والے حملوں کا جواب دیں، وہ میڈیا کی اس لڑائی میں اپنے ناقدین کی برابری نہیں کر سکے۔ اس لیے آج یہ ماحول بن گیا ہے کہ ساری صورتحال کے ذمے دار اسحاق ڈار ہیں۔ آئی ایم ایف کے جس معاہدہ میں آج پاکستان پھنسا ہوا ہے وہ سابق وزیراعظم نے کیا تھا۔ لیکن وہ بھی اس معاہدہ پر عمل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ انھوں نے خود یہ معاہدہ دو دفعہ توڑا تھا۔ متعدد وزیر خزانہ تبدیل کیے۔ سابق وزیراعظم جاتے جاتے بھی معاہدہ توڑ کر گئے۔ اس لیے آئی ایم ایف سے تعلقات کوئی اسحاق ڈار نے خراب نہیں کیے۔ اس معاہدہ پر کوئی بھی من و عن عمل نہیں کر سکتا۔ اس معاہدہ پر عمل کرنے سے پاکستانی عوام کا گلا گھٹ جاتا ہے۔ آپ دیکھیں ابھی آئی ایم ایف کی کافی شرائط پوری کر دی گئی ہیں۔ لیکن پھر بھی آئی ایم ایف قسط نہیں دے رہا۔ یہ درست ہے کہ مفتاح اسماعیل نے ایک قسط حاصل کر لی تھی لیکن جن وعدوں پر یہ قسط حاصل کی گئی تھی ان کو مکمل پورا کرنے میں عوام کا کیا حال ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ ایک طرف پاکستان کے عوام ہیں دوسری طرف آئی ایم ایف کا معاہدہ ہے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ڈالر کو کھلا چھوڑ دیا جائے۔لیکن اسحٰق ڈا ر پا کستا ن کے مفا د کو عزیز تر رکھتے ہوئے ایسا ہو نے کی راہ میں رکا وٹ بنے ہوئے ہیں۔ تا ہم اطمنا ن کی بات یہ ہے کہ انہیں وزیرِ اعظم میاں شہبا ز شر یف کی مکمل حما یت حا صل ہے۔ تو قا رئین کر ام صا ف دکھا ئی دے رہا ہے کہ اس عالمِ کسما پر سی میں میا ں شہبا ز شر یف اور اسحٰق ڈار پا کستا ن کے لیئے ایک نعمت ہیں۔اس ز مرے میں جب ہم پیچھے کی جانب نگا ہ دوڑاتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے سابق وزیراعظم کے دور میں ایسی قانون سازی بھی کروائی جس میں حکومت کا اسٹیٹ بینک پر کنٹرول ختم ہوگیا۔ یعنی پاکستان کا پاکستانی روپے پر کنٹرول ختم ہو گیا۔ ڈالر کی اڑان نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اگر ڈالر کو کنٹرول کیا جائے تو آئی ایم ایف ناراض ہوجاتا ہے۔ اور اگر ڈالر کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو مہنگائی کا طوفان آجاتا ہے۔ ایسے میں اسحاق ڈار کیا کریں۔ آئی ایم ایف کو منائیں تو عوام مرتے ہیں۔ عوام کو دیکھیں تو آئی ایم ایف ڈنڈا لے کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ ایسے میں اسحاق ڈار نے عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کی انتھک کوشش کر رہے ہیں۔
قومی بجٹ پیش کیا جاچکا ہے، لیکن بحرانی صورتحال کے پیش نظر حکومت کو اپنی ملکی معاشی ترجیحات کو قومی ضروریات کے مطابق نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگا۔ اب حکومت نے قومی آمدنی بھی بڑھانی ہے اور معیشت کو بھی ٹھیک کرنا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مستحکم ہورہا ہے کیونکہ میاں شہباز حکو مت خلوص نیت اور تندہی سے کام کر رہی ہے۔ مہنگائی کو کم کرنا حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے اگر بجٹ خسارہ کم ہوجائے تو عوام کو براہ راست ریلیف ملتا ہے کیونکہ اس سے مہنگائی کم ہوتی ہے اور نئے ٹیکسز نہیں لگانے پڑتے۔ روس سے خام تیل کی درآمد کے بعد پٹرول کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے امکانات روشن ہوچکے ہیں۔ اسی طرح ایل این جی کی درآمد سے شعبہ توانائی میں جاری بحران پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔ دوسری جانب عالمی بینک نے پاکستان کے لیے 20 کروڑ ڈالر مالی معاونت کی منظوری دے دی ہے، یہ رقم سیلاب متاثرین کی بحالی و تعمیرنو کے لیے منظور کی گئی ہے، جب کہ یوٹیلیٹی اسٹورزکارپوریشن نے گھی کی فی کلو قیمت میں 60روپے جب کہ کوکنگ آئل کی قیمتوں میں 37 روپے سے 59 روپے تک فی لیٹر تک کمی کی ہے۔ سونے کی قیمت میں 2500 روپے فی تولہ کی کمی، چاندی بھی100روپے فی تولہ سستی ہوگئی۔ گزشتہ ماہ مہنگائی کی شرح میں 38 فیصد تک کا ریکارڈ اضافہ ہوا، حکومت نے آیندہ برس کے لیے مہنگائی کی شرح سے متعلق جو پیشگوئی کی ہے وہ 21 سے 22 فیصد ہے، اس وقت مہنگائی کو کم کرنا حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے بجٹ خسارہ کم ہوجائے تو عوام کو براہ راست ریلیف ملتا ہے کیونکہ اس سے مہنگائی کم ہوتی ہے اور نئے ٹیکسز نہیں لگانے پڑتے۔ ایک تجویز یہ ہے کہ ترقیاتی بجٹ میں نمایاں کمی کردی جائے کیونکہ اس وقت پاکستان کے پاس وسائل کی دستیابی کا مسئلہ درپیش ہے جب کہ ترقیاتی بجٹ کا بیشتر حصہ ارکان پارلیمنٹ کے ہاتھوں خرچ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں کرپشن کا بازار گرم رہا ہے۔ دوسر ے یہ کہ ہمارے سرکاری محکمے، ہماری وزارتیں ہیں، ان کے شاہانہ اخراجات ہیں جو قرض پر چلنے اور پلنے والی قوم کی سرکار کو ہرگز ہرگز زیب نہیں دیتے ہیں انہیں ختم کر کے انھیں حقیقت پسندانہ بنا کر ہم بہتری کی طرف سفر کا آغاز کر سکتے ہیں۔ ہم ایک طویل عرصے سے جس طرز زندگی بلکہ جس طرز فکر و عمل کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں وہ قابل عمل نہیں رہا ہے۔ ہمیں اپنا اندازِ بود و باش دستیاب وسائل کے مطابق ترتیب دینا ہوگا یہ اربوں ڈالر کے تیل کی درآمد، لگژری گاڑیوں کی درآمد، کتوں، بلیوں کی خوراک کی درآمد پر زرمبادلہ کے اخراجات کرنے کی عادات ترک کرنا ہوں گی۔
Comments are closed.