(بلاتامل، شاہد اعوان)
کہنے کی بات یہ ہے کہ مجھے سننا نہیں آتا اور یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ میں اکثر بھول جاتا ہوں۔ میں واقعی بہت چھوٹا آدمی ہوں جس کے چھوٹے چھوٹے مفادات ہوتے ہیں اور ان کی رسید لیے وہ بڑے بڑے عذاب اپنے گلے ڈال لیتا ہے اس لئے کہ خواہش جب دل میں در آتی ہے تو خود تک پہنچنے کے اسباب اور وسائل کبھی خود ساتھ نہیں لاتی بلکہ ہمارے اندر کا ”پیاسا“ اور خواہش کا ”مارا“ خود اس تک پہنچنے کے جتن کرتا ہے، اسباب و علل تلاش کرتا ہے سو ساری زندگی میں بھی یہ بھگتا بھگت رہا ہوں۔ چھوٹا آدمی ہوں، ذرا سہما ہوا، اپنے اندر پیدا ہونے والی تھوڑی سی سچی کڑواہٹ سے ڈر جانے والا!!! چھوٹا آدمی ہوں اس لئے اکثر جوازوں کی تسبیح کے دانے رولتا رہتا ہوں۔ چھوٹا آدمی جب بڑے آدمیوں کی خصوصیات کو اپنا لے تو نہ وہ چھوٹا رہتا ہے اور نہ بڑا، اس لئے کہ بڑائی بالفعل بھی اگر ہو تو اس کا بالقوہ ہو نا ضروری ہوتا ہے اور چھوٹے آدمیوں میں بالقوہ بڑا بننے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ سارے ”چھوٹے“ بالفعل بڑا ہونے کو ہی ”بڑا پن“ مانتے ہیں مگر شاید میں حقیقت کو معکوس آئینے میں دیکھنے کا عادی ہو گیا ہوں۔ یہ بھی عین حقیقت ہے کہ چھوٹے لوگوں میں بالقوہ بڑا بننے کی صلاحیت ہوتی ہے لیکن یہ اس توفیق سے محروم ہیں جو ”فعلیت“ سے ہمکنار کرتی ہے۔ بڑے لوگ بھی توکچھ ایسے بڑے نہیں ہوتے اپنی زندگی کی مختلف سطحوں اور جہتوں میں کہیں نہ کہیں وہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں، یہ امر یقینی ہے ان کو معلوم بھی ہوتا ہے کہ یہ چھوٹا پن ان کی زندگی کے کس کس پہلو سے مترشح ہے مگر وہ اپنے بڑے پن کے لبادوں کی جیبوں سے ”چھوٹے پن“ کو جھانکنے نہیں دیتے اور بیچارے ہم جیسے چھوٹے لوگ اپنے کسی ”مزعومہ بڑے پن“ کو اپنے چھوٹے پن کی جیبوں میں اس طرح سجاتے ہیں کہ وہ جھانکتے رہیں اور لوگ انہیں دیکھ دیکھ کر مرعوب ہوتے رہیں خدا معلوم دوسرے مرعوب ہوتے ہیں یا اسے بھی ہمارا ”چھوٹا پن“ ہی سمجھ لیتے ہیں۔ فقیر تو بہت چھوٹا آدمی ہے اس لئے کہ میں نے کبھی چھوٹا آدمی تسلیم نہیں کیا اور یہی چیز مجھے آگے جانے دیتی ہے نہ پیچھے۔۔۔اور ایک ہی جگہ پر متوقف رہنا بھی چھوٹے لوگوں کی فطرت کا خاصا ہے۔
یہ چند سطور اپنی ذات سے متعلق تھیں۔ دراصل ہوا یوں کہ تاریخی درسگاہ گورنمنٹ پوسٹ ڈگری کالج اٹک میں شعبہ اردو کے پروفیسر جناب نصرت بخاری کی نظر کرم مجھ جیسے چھوٹے شخص پر کیوں پڑ گئی کہ انہوں نے ایک معمولی سے انسان کو بڑے لوگوں کی صف میں لا کھڑا کیا اور ناچیز کو کیمبل پور (موجودہ اٹک) کے باسی ہونے کا سرٹیفکیٹ عطا کر دیا۔ بخاری صاحب چونکہ استاد ہیں اور استاد کی نظر نالائقوں پر زیادہ رہتی ہے سو انہوں نے ”شخصیاتِ اٹک“ میں فقیر کو شامل کر کے ”شہرت دوام“ بخشی ہے ورنہ ہم تو گمنامی ہی میں خوش تھے۔ 300سے زائد شخصیات میں مجھ جیسا چھوٹا اور کم فہم شخص بھی ان صفحات میں جگہ پا سکتا ہے یہ ایک استاد کی بندہ نوازی نہیں تو اور کیا ہے۔ اس سے قبل جب فقیر نے چند آڑھی ترچھی لکیروں کو باہم جوڑ کر یکجا کرنے کا ہنر سیکھا تھا تو ہمارے میٹرک کے دور کے انگریزی کے استاد گرامی ملک محمد اکرم صاحب، ا للہ انہیں عمر خضر عطا فرمائے، نے فقیر کو یہ سند تصدیق عطا فرمائی تھی کہ ”تم اچھا لکھتے ہو!“ جو میرے لئے کسی پرائیڈ آف پرفارمنس سے کسی طور کم نہیں۔ اور اب ایک بار پھر ایک استاد ہی نے فقیر کے کاسہئ گدائی کو میری اوقات سے بڑھ کر تحسین کے موتیوں سے بھر دیا ہے اور ہمیشہ کے لئے مجھے اپنا مقروض کر دیا ہے۔ پروفیسر نصرت بخاری نے ”شخصیاتِ اٹک“ کے عنوان سے تاریخ رقم کر کے اٹک کی دھرتی پر ایک اور احسانِ عظیم کیا ہے جو نوجوان نسل کے لئے ایک انمول تحفہ ہے جس پر مصنف اس نوع کی تحقیقی کاوش پر مبارکباد اور زبردست تحسین کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ گو میری جنم دھرتی تلہ گنگ ہے مگر میرے نزدیک تلہ گنگ اور اٹک کو اس لئے بھی جدا نہیں کیا جا سکتا کہ دونوں اضلاع کی تاریخ، ثقافت، زبان، رہن سہن، پہناوے اور روایات آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ ساحر لدھیانویؔ نے شاید ہم جیسوں ہی کے لئے کہا تھا:
دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنا قریب سے
چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے
ہرگام پر ہے مجمعئ عشاق منتظر
مقتل کی راہ ملتی ہے کوئے حبیب سے
اس طرح زندگی نے دیا ہے ہمارا ساتھ
جیسے کوئی نباہ رہا ہو رقیب سے
Comments are closed.