پیسہ کہاں سے آئے گا

تحریر: اعجازعلی ساغر اسلام آباد

Ijaz Ali Sagir

ایک کمپنی نے نوکری کیلئے اشتہار دیا اور سیلری بہت پرکشش رکھی سیلری اتنی پرکشش تھی کہ سب حیران تھے درخواستیں دینے والوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں ہر ایک کی خواہش تھی کہ یہ جاب اسے ملے کیونکہ تنخواہ جو پرکشش تھی سلیکشن مکمل ھوئی اور جو لوگ بھرتی ھوئے ان کو تنخواہ کے متعلق بتایا جانے لگا لمبی تقریریں چلیں آخر میں کمپنی کے مالک کا خطاب تھا سب سلیکٹ ھونیوالے خوش تھے کہ وہ کمال کی نوکری ملی ہے وہ دل ہی دل میں ناجانے کہاں سے کہاں پہنچ گئے اسی اثناء میں کمپنی کے مالک کا خطاب شروع ھوا اور سب متوجہ ھوئے مالک نے بھی بڑی پرکشش باتیں کیں اور تقریر کے اختتام پہ کہا کہ میرے بچوں یہ سب کچھ آپ کو ضرور ملے گا لیکن ھماری کمپنی کا ایک مسئلہ ہے ھمارے پاس ایک روپیہ بھی نہیں ہے بس آپ سب نے مل کر یہ پیسے اکٹھے کرنے ہیں اور پھر آپ کی موجیں ھوں گی موجیں۔
9 جون کو قومی اسمبلی میں 144 کھرب 60 ارب روپے کا خسارے کا بجٹ پیش کردیا گیا جس میں مجموعی خسارہ 69 کھرب 24 ارب روپے ہے 11 کھرب کا ترقیاتی پروگرام ترتیب دیا گیا ہے قرض کی ادائیگیوں کیلئے 73 کھرب روپے رکھے گئے ہیں۔
اس بجٹ میں تعلیم کیلئے 81.9 ارب روپے صحت کیلئے 22.8 ارب روپے,دفاع کیلئے 1804 ارب جبکہ سول انتظامیہ کیلئے 714 ارب روپے رکھے گئے ہیں یوٹیلٹی اسٹورز پر مستحق افراد کیلئے 35 ارب روپے رکھے گئے ہیں,بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلئے 450 ارب روپے,صحافیوں کیلئے ہیلتھ انشورنس کیلئے ایک ارب روپے رکھے گئے ہیں,آئندہ انتخابات کیلئے 42 ارب 41 کروڑ روپے جبکہ سکیورٹی کیلئے 15 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
یہ بجٹ اس وقت پیش کیا گیا ہے جب پاکستان کی پیسوں کے حصول کیلئے آئی ایم ایف سے مذاکرات پہ مذاکرات جاری ہیں اور باوجود کوششوں کے ڈیل فائنل نہیں ھورہی ملک میں جاری عدم استحکام نے ملک کی جڑیں ہلاکر رکھ دی ہیں خارجہ پالیسی کا بقول وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر یہ حال ہے کہ دوست ممالک بھی ہم پر اعتبار نہیں کررہے اور انہوں نے بھی مدد سے انکار کردیا ہے اسکی واضح مثال کچھ عرصہ پہلے سعودی وزیر خزانہ کا وہ بیان تھا کہ جس میں انہوں نے اشارتاً کہا تھا کہ سعودی عرب اب مزید امداد کرنے سے قاصر ہے دوست ممالک اب اپنے پاؤں پر کھڑا ھونے کی کوشش کریں سعودی عرب اب کچھ دو کچھ لو کے مصداق عمل کرے گا۔
چین جو ھمارا دیرینہ دوست ہے جس نے ہر مشکل میں ھماری مدد کی ہے لیکن اب وہ بھی ھمیں بوجھ سمجھنے لگ گیا ہے اور اس نے بھی اب اپنی شرائط منوانی شروع کردی ہیں۔
متحدہ عرب امارات اور باقی عرب ریاستیں بھی بغیر مفاد کے کچھ دینے سےانکاری ہیں امریکہ بادشاہ خود ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے اگر جوبائیڈن انتظامیہ کے ریپبکن کیون میکارتھی اور کانگریس سے معاملات بگڑتے ہیں تو وہ بلوں کی ادائیگیاں نہیں کرپائیں گے جس کی وجہ سے ملک کو ڈیفالٹ کا خطرہ ہے بظاہر معاملات طے پاگئے ہیں اور حکومت کو قرض کی ادائیگیاں شروع ھوچکی ہیں لیکن بہرحال یہ خطرہ ابھی بھی مکمل طور پر ٹلا نہیں ہے بلکہ موجود ہے۔
وزیراعظم میاں شہبازشریف ایک دورے کے دوران ایک دوست ملک کے سربراہ کو یہ کہہ چکے ہیں کہ میں مانگنے نہیں آیا لیکن کیا کروں مجبوری ہے آپ ھماری ہیلپ کریں وزیراعظم صاحب لینے والے سے دینے والا ہاتھ بہتر ھوتا ہے ایک وقت تھا کہ ہم سعودی عرب,جرمنی اور دوسرے ممالک کو قرض دیتے تھے لیکن آج وہ ممالک کہاں پہنچ گئے اور ھم کہاں کھڑے ہیں جب تک ھم یہ مانگنے والی روش ختم نہیں کریں گے تب تک ہم ترقی نہیں کرسکتے ھمارے پاس جو ریزرو پڑے ہیں ان کو ھم صرف دیکھ سکتے ہیں چھیڑ نہیں سکتے ان پیسوں کو دکھاکر ہی ہمیں مالیاتی اداروں سے قرض ملے گا اس کو میں ایک مثال دیکر سمجھانا چاھوں گا,ٹریفک سگنل پہ ایک موٹرسائیکل آکر رکی ابھی سگنل کھلنے میں دیر تھی کہ وہ بائیک اسٹارٹ ھوئی اور آگے نکل گئی اس کے دیکھا دیکھی تین چار بائیکس والوں نے بھی اشارہ توڑ دیا اور نکلنے کی کوشش کی ان کو ٹریفک پولیس نے دھر لیا اور چالان کرنے لگے ان بائیکس والوں نے کہا کہ آپ نے ھمیں تو روک لیا لیکن اس بائیک والے کو تو کچھ نہیں کہا پولیس والے ہنسے اور کہا کہ وہ تو آپ جیسوں کو پھنسانے رکھا ھوا ہے ان بائیکس والوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ بائیک والا پھر سگنل پر آرہا ریسیں دے رہا تھا۔ ھمیں دوست ممالک نے پیسے مزید ممالک کو پھنسانے کیلئے رکھوائے ھوئے ہیں تاکہ مزید قرض لے سکیں۔
اس وقت بجٹ تو پیش کردیا گیا ہے لیکن اس کیلئے پیسے کہاں سے آئیں گے یہ بات سوچنے والی ہے ھمارا خزانہ خالی ہے لیکن حکمرانوں کی عیاشیاں ختم ھونے کا نام نہیں لے رہیں اللوں تللوں میں پیسے اڑائے جارہے ہیں عوامی مسائل حل کرنے کی طرف کسی کی بھی توجہ نہیں ہے پیپلزپارٹی نے میڈیا میں ابھی سے پھونک بھر دی ہے کہ اگلا وزیراعظم بلاول ہے جبکہ ن لیگ والے اپنی شیروانیوں کے آرڈر کا سوچ رہے ہیں تحریک انصاف اور عمران خان کی غلط پالیسیوں اور جارحانہ مزاج نے پارٹی کا وجود فی الحال ختم کردیا ہے تحریک انصاف کی حالت ماضی قریب کی ق لیگ جیسی ھوگئی ہے۔
نئی سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی کی لانچنگ کچھ سیاسی جماعتوں کا اثرو رسوخ کم کرنے کیلئے کی گئی ہے جو دن بدن پھلے پھولے گی اور بڑی جماعتوں کو ٹکر دے گی۔
حکومت کیلئے فی الحال سب سے بڑا چیلنج آئی ایم ایف قرض کی بحالی ہے اگر ان کیساتھ معاہدہ ھوجاتا ہے تو پھر تو ٹھیک ہے لیکن خدانخواستہ اگر معاہدہ نہیں ھوتا تو پھر ھمارے لیے بہت بڑی پرابلم ھوگی۔
مسئلہ اس حکومت کا نہیں ہے یہ تو انتالیس چالیس دن کی رہ گئی ہے اصل مسائل اس حکومت کیلئے ھوں گے جو انتخابات کے بعد آئے گی سیاسی جماعتوں کی آپسی لڑائی صوبوں تک پھیل چکی ہے صوبوں اور وفاق میں کھینچا تانی شروع ھوچکی ہے اگر اس صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو اسکے نتائج بھیانک نکلیں گے۔
خدارا تمام سیاسی جماعتیں اور سیاستدان اس ملک کیلئے اکٹھے ھوجائیں ورنہ آپ لوگوں کی آپسی لڑائی میں ملک مزید تباہی کی طرف چلا جائے گا (ﷲ نہ کرے) خدارا آپسی اختلافات بھلاکر پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔

Comments are closed.